عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے پاکستان کے دو صوبوں کو لکھے گئے خطوط میں تجویز دی گئی ہے کہ کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے وقفوں کے ساتھ لاک ڈاؤن ضروری ہو گیا ہے۔
صوبائی حکومتوں کا کہنا ہے کہ ان تجاویز پر مناسب فورم پر غور کیا جائے گا۔ ادھر ڈاکٹرز کے مطابق کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز میں لاک ڈاؤن کی تجاویز پر عمل درآمد ناگزیر جب کہ احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنے کے لیے قانون سازی کی بھی اشد ضرورت ہے۔
خیال رہے کہ ڈبلیو ایچ او کی تجاویز ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب بدھ کو پاکستان میں کرونا کیسز ایک لاکھ 13 ہزار سے زائد جب کہ وائرس سے ہونے والی اموات 2200 سے بڑھ گئی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کیا ہیں؟
صوبہ سندھ اور پنجاب کے حکام کو لکھے گئے خطوط میں عالمی ادارہ صحت کے پاکستان میں نمائندے ڈاکٹر پلیتھا ماہی پالا کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر کی طرح پاکستان کے قومی نظامِ صحت کو بھی متاثر کیا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ یہ وبا پاکستان کے تمام شہروں میں جا پہنچی ہے۔ بڑے شہروں میں کیسز کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران پاکستان میں اوسطاً ایک ہزار کیسز سامنے آرہے تھے۔ لاک ڈاؤن کو جزوی طور پر ہٹانے سے یومیہ کیسز کی تعداد اوسطاً دو ہزار تک جا پہنچی تھی۔ لاک ڈاؤن کے مکمل خاتمے کے بعد یہ تعداد چار ہزار یومیہ پر جا پہنچی ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے کرونا ٹیسٹس مثبت آنے کی شرح بھی 25 فی صد تک جا پہنچی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے تحت وہ شرائط جن پر حکومتیں لاک ڈاؤن کی پابندیاں اٹھا سکتی ہیں ان میں وبا کی منتقلی کنٹرول میں ہونا، نظام صحت اس قابل ہونا کہ وہ ہر کیس کا کھوج لگائے، ٹیسٹ کرنے، متاثرہ شخص اور اس کے تمام روابط کو بھی آئسولیٹ کر کے علاج کرنے کے قابل ہونا شامل ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی سفارشات ہیں کہ وبا کے پھیلنے کا خطرہ کم سے کم، اسکولوں، کام کی جگہوں اور دیگر اہم مقامات پر احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔
سفارشات میں یہ بھی شامل ہے کہ وبا سے متعلق لوگوں میں مکمل شعور اور آگاہی کا ہونا بھی ضروری ہے۔
عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ پاکستان ان تمام چھ شرائط میں سے کسی ایک شرط پر بھی پورا نہیں اترتا۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت پاکستان میں کرونا وائرس کے مثبت آنے والے ٹیسٹس کی شرح 24 فی صد ہے جو 5 فی صد سے زائد نہیں ہونی چاہیے۔
اسی طرح متاثرہ شخص کی تلاش اور اس کے علاج سے متعلق نظام کمزور ہے۔ انتہائی خطرناک حالت میں پائے جانے والے مریضوں کے لیے سہولیات بہت کم ہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ عوام اس نئی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ذہنی طور پر تیار دکھائی نہیں دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کرونا سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں تیزی سے اُوپر جا رہا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ایسی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے جو صحت عامہ کے ساتھ معاشی خوشحالی، انسانی حقوق اور غذائی تحفظ کو بھی یقینی بنائے۔
اس کے لیے ایسے متاثرہ اضلاع، قصبوں یا دیہاتوں یا ان کے کچھ حصوں میں پہلے مرحلے میں وقفے وقفے سے لاک ڈاون کیا جائے۔ اس کے ساتھ بہتر حکمت عملی کے ساتھ عمل کیا جائے تاکہ صحت کے نظام کو تباہی سے بچایا جا سکے۔
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کہا گیا ہے اس صورتِ حال میں دو ہفتے لاک ڈاؤن اور دو ہفتے حکمت عملی اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ کام کیا جائے جب کہ کرونا ٹیسٹس کی یومیہ تعداد 50 ہزار تک کرنا بھی ضروری ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے صوبائی حکومتوں کو لکھے گئے خط اور اس میں سفارشات پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم کے مشیر برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ حکومت کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے حقائق کی روشنی میں وسیع البنیاد حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔
اُن کے بقول ملک کے معاشی اور سماجی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کیے جا رہے ہیں۔
بدھ کو ایک بیان میں ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ کرونا وائرس کی صورتِ حال کے پیشِ نظر نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر میں روزانہ کی بنیاد پر وزرا کی سطح پر صورتِ حال کا باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ ماہرین اور صوبوں کی جانب سے سامنے آنے والی تجاویز کی روشنی میں فیصلے لیے جاتے ہیں۔
مشیر صحت کا کہنا تھا کہ پاکستان کی دو تہائی آبادی کم آمدنی والے طبقے پر مشتمل ہے جن کا گزر بسر روز کی اُجرت پر ہوتا ہے۔ حکومت کو اس صورتِ حال میں مشکل فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں۔ لوگوں کی صحت اور ان کی زندگی کے بارے میں توازن برقرار رکھنا بھی ضروری ہے۔
ڈاکٹر مرزا کے مطابق اگرچہ ملک میں لاک ڈاؤن میں نرمی کی جا چکی ہے مگر اب ہماری زیادہ ترجیح احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر ہے جس کے تحت ماسک پہننے کو لازم قرار دینے کے ساتھ صحتِ عامہ کی سہولیات کو مزید بہتر بنایا جارہا ہے۔
صوبائی حکومتوں کا رد عمل
ادھر صوبہ سندھ میں برسر اقتدار جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے لکھے گئے خط میں جائز تحفظات کا اظہار اور تجاویز دی گئی ہیں۔
اپنی ایک ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت کی حکومت ان تجاویز پر غور کرے گی جس کے بعد انہیں قومی سطح پر بھی اٹھایا جائے گا۔
بلاول بھٹو زرداری کا مزید کہنا تھا کہ ان کی جماعت حقائق اور صلاحیت کی بنا پر ایک قومی پالیسی کی خواہاں رہی ہے۔ لیکن وفاقی سطح پر اس کا فقدان رہا ہے۔
پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے بھی عالمی ادارہ صحت کی سفارشات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ علاقے جہاں کرونا وائرس بہت زیادہ پھیل گیا ہے ان علاقوں میں لاک ڈاؤن کرنا پڑے گا۔
لیکن اس پر فیصلہ کابینہ کی قائم کردہ کمیٹی کرسکتی ہے اور اس لیے عالمی ادارہ صحت کی تجاویز اور سفارشات کو صوبائی کابینہ میں پیش کیا جائے گا۔
'عالمی ادارے کی سفارشات پر عمل درآمد ناگزیر'
ڈاکٹرز کی ملک گیر تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے حکومت کی جانب سے اس سے قبل ڈاکٹرز کی جانب سے دی گئی تجاویز پر عمل نہیں کیا گیا۔ اب عالمی ادارہ صحت کی جانب سے لاک ڈاؤن کی تجاویز دی جا رہی ہیں۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا ہے کہ ڈاکٹرز کی سفارشات کو حکومت نے سنا اور نہ ہی عدالت نے۔ عوام کی جانب سے بھی احتیاطی تدابیر کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا جس کا نتیجہ اس وقت سب کے سامنے ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے تاجروں کے دباؤ میں آ کر بازار اور مارکیٹیں کھولیں۔ عدلیہ نے ڈاکٹروں کی سائنسی رائے کو اہمیت نہیں دی۔
اُن کا کہنا تھا کہ صورتِ حال بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے اور لوگ ہمیں فون کر کے کہہ رہے ہیں کہ ان کے مریض کو اسپتال میں ایک بستر دلوا دیا جائے۔
ڈاکٹر قیصر سجاد کے مطابق ہم نے وبا سے بچاؤ کا سنہری وقت گنوا دیا لیکن مزید افراد کو اس وبا سے بچانے اور صحت کے نظام کو مکمل تباہی سے بچانے کے لیے لوگوں میں شعور اجاگر کیا جائے۔
ڈاکٹرز نے تجویز دی کہ احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنے والوں کو بھاری جرمانوں کے لیے قانون سازی کی جائے اور اس پر سختی سے عمل درآمد بھی کرایا جائے تبھی اس سے بچاؤ ممکن ہو سکے گا۔
پاکستان میں بدھ تک کرونا مریضوں کی تعداد ایک لاکھ 13 ہزار سے بڑھ چکی ہے۔ 24 گھنٹوں کے دوران پانچ ہزار 385 کیسز کا اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں کرونا سے ہونے والی اموات کی تعداد 2200 سے بڑھ چکی ہے۔
پاکستان کرونا سے متاثرہ دنیا کے 15 بڑے ملکوں کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔ ملک میں وبا سے صحت یاب ہونے والے افراد کی تعداد 36 ہزار ہے۔