رسائی کے لنکس

افغانستان کی فضائی حدود استعمال نہ کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟



کابل ائیر پورٹ پر طالبان کے جھنڈے
کابل ائیر پورٹ پر طالبان کے جھنڈے

ویب ڈیسک ۔ امریکہ نے افغانستان پر طالبان کنٹرول کے دو سال بعد ایسے قوانین میں نرمی کرنا شروع کر دی ہے جو کمرشل ایئر لائنز کو ملک کی فضا ئی حدود میں ایسے راستوں پر پرواز کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں جو مشرق اور مغرب کے سفر کے لیےدورانیے اور ایندھن کی کھپت کو کم کرتے ہیں۔

تاہم بھارت اور جنوب مشرقی ایشیا کے لیے پرواز کے کی خاطر مختصر راستوں کا انتخاب کچھ ایسے سوالات کو سامنے لاتا ہے جن کا جواب طالبان نے 9019 کی دہائی سے لے کر 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد کبھی نہیں دیا گیا۔

ایک سوال تو یہ بھی ہے کہ آپ طالبان کے ساتھ کیسے نمٹتے ہیں کیونکہ انہوں نے خواتین کو سکول جانے اور ملازمتیں کرنے سے روک دیا ہے اقوام متحدہ کے ماہرین کے مطابق ان کے رویے ممکنہ طور پر ’’جنسی امتیاز‘‘ کے مترادف ہیں ۔ کیا ایئر لائنز کسی ایسے ملک کی فضائی حدود میں پرواز کرنے کا خطرہ مول لے سکتی ہیں جہاں ایک اندازے کے مطابق کندھے سے لانچ کیے جانے والے 4500طیارہ شکن ہتھیار اب بھی موجود ہیں؟ اس کے علاوہ اگر کو ئی ہنگامی صورتحال درپیش ہو اور اچانک لینڈ کرنے کی ضرورت ہو تو اس صورت میں کیا کیا جائےگا؟

قندھار ائیر پورٹ
قندھار ائیر پورٹ

شہری ہوا بازی کی ایک تنظیم اوپی ایس گروپ نے اس سوال کے حوالے سے کہ ایسے ملک کی فضائی حدود میں کون پرواز کرنا چاہے گا ، حال ہی میں ایک سادہ جواب دیا ہے کہ ’’کوئی بھی نہیں۔‘‘

ملک میں اے ٹی سی یعنی ائیر ٹریفک کنٹرول کی سہولت ہی موجود نہیں ۔ پھر زمین سے فضا میں مار کرنے والے ہتھیاروں کی بہتات ہے اور اگرآپ کم بلندی پر پرواز کر رہے ہیں یا آپ کو اپنا رخ تبدیل کرنا ہے تو اس صورت میں کیا ہو گا؟ یہ سوال اس گروپ نے اپنی ایک ایڈوائزری میں تحریر کیے ہیں۔ تاہم افغانستان کی فضائی حدود میں دوبارہ پروازیں شروع کرنے کے امکانات کا ائیر لائینز پر بڑا اثر مرتب ہونے کا امکان ہے۔

وسطی ایشیا میں افغانستان کے جغرافیائی مقام کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت سے یورپ اور امریکہ کا سفر کرنے والوں کے لیے افغانستان سے براہ راست پروازیں کی جا سکتی ہیں۔ 15اگست 2021 کو طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا اور اس وقت سے شہری ہوابازی کا شعبہ ختم ہو گیا کیونکہ زمین پر موجود کنٹرولرز اب فضائی حدود کا انتظام نہیں سنبھال رہے ہیں۔ 2014 میں ملائیشیا کے ایک مسافر بردار طیارے کو یوکرین کی فضائی حدود میں مار گرایا گیا جس کے بعد طیارہ شکن فائرنگ کے خدشات میں اضافہ ہوا اور دنیا بھر میں حکام نے اپنے مسافر بردار طیاروں کو ایسی فضائی حدود سے باہر رہنے کے احکامات جاری کیے ۔

واخان کوریڈور
واخان کوریڈور

اس کے بعد سے ایئر لائنز زیادہ تر افغانستان کی سرحدوں سے باہر رہتے ہوئے پرواز کرتی ہیں ۔یہ پروازیں صرف چند منٹوں کے لیے افغان فضائی حدود سے گزرتی ہیں اور وہ بھی کم آبادی والے واخان کوریڈور کے اوپر سے پرواز کرتی ہیں ۔

تاہم اس انداز میں سفر کرتے ہوئے پروازوں کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہوائی جہازکو زیادہ ایندھن درکار ہوتا ہے جو کسی بھی ہوائی کمپنی کے لیے اخراجات میں اضافہ کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یو ایس فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن یا ہوا بازی کی وفاقی انتظامیہ(ایف اے اے) نے جولائی کے آخر میں ایک ایسا فیصلہ کیا جس نے ہوا بازی کی صنعت کی توجہ حاصل کر لی۔ امریکہ کی ہوا بازی کی انتطامیہ نے اعلان کیا کہ 32000 فٹ (9750 میٹر) سے اوپر کی پروازیں ممکنہ طور پر گرائے جانے کے خطرے کو کم کر سکتی ہیں اور اس طرح ہوا بازی کا دوبارہ آغاز کیا جا سکتا ہے۔

امریکی ہوا بازی کی وفاقی انتظامیہ ایف اے اے امریکہ میں قائم ایئر لائنز کے قوانین کی نگرانی کرتی ہے اور اس نے اس بارے میں سوالات کا حوالہ دیتے ہوئے اس فیصلے کو محکمہ خارجہ کےحوالے کر دیا ۔ محکمہ خارجہ نے تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔ تاہم افغانستان سے امریکہ اور نیٹو کے انخلا کے بعد محکمہ خارجہ کے ایک نمائندےنے طالبان حکام سے متعدد بار ملاقاتیں کی ہیں۔طالبان حکام نے بھی ایسوسی ایٹڈ پریس کی جانب سے پابندیوں کے خاتمے پر تبصرے کی بار بار کی گئی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

6 اگست 2007 کو تہران کے مہرآباد ہوائی اڈے پر ایرانی ایئر لائنز کا فوکر اڑان بھرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایران کے جنوبی علاقے میں ایسمین ایئر لائنز کا اے ٹی آر 72 طیارہ گر کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں طیارے میں سوار تمام 66 افراد ہلاک ہو گئے۔
6 اگست 2007 کو تہران کے مہرآباد ہوائی اڈے پر ایرانی ایئر لائنز کا فوکر اڑان بھرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایران کے جنوبی علاقے میں ایسمین ایئر لائنز کا اے ٹی آر 72 طیارہ گر کر تباہ ہو گیا جس کے نتیجے میں طیارے میں سوار تمام 66 افراد ہلاک ہو گئے۔

اب معلوم ہوتا ہے کہ فی الحال افغان اور ایرانی کیریئرز کے علاوہ کوئی بھی ایئرلائن ملک کی فضائی حدود میں پرواز کرنے کا چانس نہیں لے رہی ۔ اس کی ایک وجہ عسکریت پسندوں کی جانب سے فائرنگ کا خطرہ ہے کیونکہ افغانستان میں ہوائی جہازوں کو ہدف بنانے والے میزائیلوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو 1980 کی دہائی میں سوویت یونین سے لڑنے والے مسلح مجاہدین کے پاس تھی ۔ اوپن سورس انٹیلی جنس فرم جینز کے تجزیہ کار ڈیلن لی لہرکے کا کہنا ہے کہ افغانستان کے پاس سوویت دور کی 19-KS طیارہ شکن بندوقیں ہو سکتی ہیں۔ ایف اے اے کاخیال ہے کہ32,000 فٹ سے زیادہ بلندی پر پرواز کرنے والے جہاز ان کی زد سے بچ سکتے ہیں چاہے پہاڑ کی چوٹی سےہی فائر نگ کیوں نہ کی جائے۔

امریکہ کی یونائیٹڈ ایئر لائنز نیوارک، نیو جرسی سے نئی دہلی کے لیے براہ راست پرواز چلاتی ہےاور یہ واخان کوریڈور کا استعمال کرتی ہے۔ اس طرح پرواز کا دورانیہ مختصر کیا جا سکتا ہے۔ایف اے اے کے موجودہ قوانین کے مطابق یونائیٹڈ نیویارک سے نئی دہلی کے لیے پرواز کرتے ہوئے افغانستان کی فضائی حدود کے ایک چھوٹے سے حصے کو استعمال کرتا ہے جہاں دوسرے ممالک کی جانب سے ایئر ٹریفک کنٹرول فراہم کیا جاتا ہے ۔

یونائیٹڈ کے ترجمان جوش فریڈ نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ’’ اس وقت افغانستان کی فضائی حدود کے استعمال میں توسیع کی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے۔ورجن اٹلانٹک ائیر لائن بھی نئی دہلی کی پروازوں کے لیے واخان کوریڈور ہی پر پرواز کرتی ہے۔ برطانیہ نے ابھی تک اپنے قواعد میں تبدیلی نہیں کی ہے جس میں کیریئرز کو افغانستان کی تقریباً تمام فضائی حدود سے باہر رہنے کے لیے کہا گیا ہے۔ ورجن اٹلانٹک نے کہا کہ وہ ’’تازہ ترین صورتحال کے بارے میں دی جانے والی رپورٹوں کی بنیاد پر اور برطانیہ کی طرف سے دیے گئے مشورے پر عمل کرتے ہوئے پرواز کے راستوں کا تعین کرتی ہے۔ ‘‘امریکن ایئر لائنز اور ایئر انڈیا بھی واخان کوریڈور کا راستہ استعمال کرتی ہیں۔ ان کیریئرز نے ایسوسی ایٹڈ پریس کی جانب سے تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا ہے۔

یونائیٹڈ ائیر لائینز
یونائیٹڈ ائیر لائینز

ماضی میں ایئر لائنز اس راستے کو بہت زیادہ استعمال کرتی تھیں۔ انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کی نومبر 2014 کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2002 میں پروازوں کی آمدورفت تقریبا ً معطل ہو کر رہ گئی تھی ۔ تاہم تقریباً بارہ سال بعد ملک کی فضائی حدود سے گزرنے والی پروازوں کی سالانہ تعداد 100000 سے زیادہ ہو گئی ۔

طالبان کے کنٹرول سے پہلے حکومت ملک کی فضائی حدود میں پرواز کرنے والی ہر پرواز سے 700 ڈالر فیس وصول کرتی تھی جو آمدن کے لیے اہم تھی کیونکہ افغانستان معاشی بحران کا شکار ہے۔ 2001 میں امریکی قیادت میں حملے کے بعد حکام نے افغانستان کی ختم ہونے والی حکومت کو پروازوں کی آمد سے ملنے والی فیس میں تقریباً 20 ملین ڈالر جاری کر دیے جسے پہلے منجمد کر دیا گیا تھا۔

اب طالبان کہتے ہیں کہ وہ محدود پروازوں سے بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ نجی افغان ٹیلی ویژن تولونے ٹرانسپورٹیشن اور ہوا بازی کی وزارت کے ترجمان امام الدین احمدی کے حوالے سے بتایا ہے کہ افغانستان کو گزشتہ چار ماہ کے دوران ملک کی فضائی حدود استعمال کرنے والی پروازوں سے 8.4ملین ڈالر کی آمدن ہوئی ہے۔ احمدی نے بتایا کہ افغان فضائی حدود سے گزرنے والی ہر پرواز سے 700 ڈالر حاصل ہوتے ہیں اور پروازوں میں اضافے سے افغانستان کو زیادہ فائدہ ہو گا۔

وزارت نے یہ بھی بتایا ہے کہ اسے انٹر نیشنل ائیرٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن سے بھی رقم ملی ہے۔ یہ دنیا میں کام کرنے والی ائیر لائینز کی تجارتی تنظیم ہے۔ تاہم آئی اے ٹی اے نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا ہے کہ افغان فضائی حدود کو استعمال کرنے والی پروازوں سے رقم اکٹھا کرنے کا معاہدہ معطل ہو رہا ہے جس کی وجہ طالبان پر عائدپابندیاں ہیں۔ اب ستمبر 2021 کے بعد سے افغانستان کو کوئی ادائیگی نہیں کی گئی ہے۔

اس رپورٹ کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG