برطانیہ کے نئے منتخب ہونے والے وزیر اعظم بورس جانسن اس وقت برطانیہ کے با اثر ترین سیاست دانوں میں شمار ہوتے ہیں۔
وہ 19 جون، 1964 کو نیویارک کے علاقے مین ہیٹن میں پیدا ہوئے۔ اس وقت ان کی پیدائش کی رجسٹریشن بیک وقت امریکہ اور برطانوی قونصل خانے میں ہوئی۔ یوں وہ بیک وقت امریکی اور برطانوی شہری ہیں۔
ان کی پیدائش کے وقت ان کے والد سٹینلے جانسن برطانوی شہری کی حیثیت سے کولمبیا یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے۔
وہ اپنے والدین کے ہمراہ 1969 میں برطانیہ کے شہر ونفورڈ کے فارم ہاؤس میں منتقل ہو گئے۔ تاہم 1980 میں ان کے والدین میں طلاق ہو گئی اور وہ اپنے بہن بھائیوں کے ہمراہ اپنی والدہ شارلٹ کے ساتھ لندن میں رہنے لگے۔
بعد میں انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ وہ 1984 میں آکسفورڈ یونیورسٹی یونین کے صدر منتخب ہو گئے۔ پاکستان کی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو بھی 1977 میں آکسفورڈ یونیورسٹی یونین کی صدر رہ چکی ہیں۔
بورس 1987 سے 1994 تک ایک صحافی کی حیثیت سے ’’ٹائمز‘‘ اور ’’ڈیلی ٹیلی گراف‘‘ سے منسلک رہے۔ اس دوران انہوں نے سیاسی موضوعات پر بہت سے مضامین لکھے اور سابق کنزرویٹو وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر بھی ان مضامین کی وجہ سے ان کی مداح بن گئیں۔ تاہم مارگریٹ تھیچر کے جانشین جان میجر ان کے ناقدانہ مضامین پر غم و غصے کا اظہار کرتے رہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ بورس کے ان تنقیدی مضامین کی وجہ سے کنزرویٹو پارٹی 1997 کے عام انتخابات میں شکست کھا گئی۔
1987 میں ہی ان کی شادی موسٹن اووین سے ہوئی۔ تاہم یہ شادی زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور مئی 1993 میں ان میں طلاق ہو گئی۔ انہوں نے طلاق کے ایک ماہ بعد دوبارہ شادی کر لی۔
انہی دنوں بورس قدامت پسند جماعت کے نظریات سے ہٹ کر زیادہ لبرل رجحان کی طرف مائل ہو گئے اور وہ موسمیاتی تبدیلی اور ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے جدوجہد میں شامل ہو گئے۔ اگرچہ ان کے مضامین کو عمومی طور پر سراہا گیا تاہم بعض مضامین میں افریقی اور ہم جنس پرست افراد کے بارے میں غیر مناسب جملے لکھنے کی بنا پر انہیں ہدف تنقید بنایا گیا۔
انہوں نے اپنے سیاسی کیرئر کا آغاز 1993 میں کیا۔ 1994 میں قدامت پسند جماعت کی طرف سے یورپین پارلیمنٹ کا انتخاب اور پھر 1997 میں ویسٹ منسٹر سے ایم پی کا انتخاب ہارنے کے بعد وہ 2001 میں ایم پی منتخب ہو ہی گئے۔ وہ اگلی مدت کے لیے 2005 میں دوبارہ ایم پی منتخب ہوئے۔ اس وقت کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے انہیں شیڈو ہائر ایجوکیشن منسٹر مقرر کیا۔
تاہم چھ ماہ بعد ہی انہیں اس منصب سے اس وقت ہٹا دیا گیا جب شادی شدہ ہونے کے باوجود انہوں نے ایک صحافی پیٹرونیلا ییٹ کے ساتھ اپنے معاشقے میں مبتلا ہوئے اور اسے چھپانے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ بھی وہ متعدد تنازعات کا شکار رہے۔
اسلام کے بارے میں ان کے متنازعہ بیانات پر بھی انہیں ہدف تنقید بنایا گیا۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ اسلام میں کچھ ایسی باتیں موجود ہیں جن کی وجہ سے مسلمان تمام دنیا میں پیچھے رہ گئے ہیں۔
انہوں نے ایک اور مضمون میں برقع پہنے والی مسلمان خواتین کو لیٹر بکس اور بینک لوٹنے والوں سے تشبیہ دی، جس پر برطانیہ کی مسلمان تنظیموں نے شدید تنقید کی تھی۔
تاہم بورس نے اپنا سیاسی سفر جاری رکھا اور وہ 2008 میں لندن کے میئر منتخب ہو گئے۔ میئر منتخب ہونے کے بعد بورس نے عوامی ٹرانسپورٹ میں شراب نوشی پر پابندی لگائی۔ میئر کی حیثیت سے انہوں نے ٹرانسپورٹ سمیت مختف عوامی سیکٹرز میں اصلاحات کی کوششیں کیں۔ 2012 میں وہ ایک مرتبہ پھر لندن کے میئر منتخب ہو گئے۔
تاہم دو سال بعد انہوں نے دوبارہ ہاؤس آف کامنز کا انتخاب لڑنے کا فیصلہ کر لیا اور وہ 2015 میں دوبارہ ایم پی منتخب ہو گئے۔ اس وقت یہ افواہیں زور پکڑنے لگیں کہ وہ ڈیوڈ کیمرون کو قدامت پسند جماعت کے لیڈر اور وزیر اعظم کے منصب سے ہٹا کر خود وزیر اعظم بننے کے خواہش مند ہیں۔
انہوں نے اگلے برس 2016 میں برطانیہ کے یورپین یونین سے الگ ہونے کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ انہوں نے ڈیوڈ کیمرون کی بریگزٹ مخالف پالیسی پر شدید تنقید کی۔ بورس کا کہنا تھا کہ متحدہ یورپ کی صورت میں ’’رومن سلطنت‘‘ قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جب تھیریسا مے قدامت پسند جماعت کی لیڈر اور وزیر اعظم منتخب ہوئیں تو انہوں نے بورس جانسن کو برطانیہ کا وزیر خارجہ مقرر کر دیا۔
بورس جانسن برطانیہ کے سیاسی حلقوں میں غیر روایتی اور متنازعہ تصور کیے جاتے ہیں۔ تاہم امریکی صدر ٹرمپ نے انہیں مبارکباد دیتے ہوئے ایک ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ وہ اچھے وزیر اعظم ثابت ہوں گے۔