وائٹ ہاؤس نے منگل کے روز بتایا ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے قومی سلامتی کے سابق مشیر، مائیکل فلن سے مستعفی ہونے کے لیے کہا تھا، چونکہ اُن کی جانب سے روس کے ساتھ رابطوں کے حوالے سے وضاحت کے معاملے پر’’اعتماد کی سطح بگڑ چکی تھی‘‘۔
وائٹ ہاؤس ترجمان، شان اسپائسر نے کہا ہے کہ ’’صدر اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ قومی سلامتی کے مشیر پر اُن کا اعتماد باقی نہیں رہا‘‘۔
ریٹائرڈ جنرل، فلن کو پیر کی رات عہدے سے ہٹا دیا گیا، جس سے محض تین ہفتے قبل اُنھوں نے ٹرمپ کے حکمتِ عملی کے اعلیٰ مشیر کے طور پر عہدہ سنبھالا تھا، امریکی صدارت میں کسی اعلیٰ اہل کار کی اتنی کم مدت میں علیحدگی ریکارڈ پر نہیں ہے۔
اسپائسر نے کہا کہ ٹرمپ کو خوشی ہوئی کہ فلن نے امریکہ میں روس کے سفیر، سرگی کسلیاک سے بات کی تھی، اور یہ کہ قانونی طور پر اُن کی گفتگو میں کوئی خرابی نہیں تھی، حالانکہ اُس وقت وہ ایک عام شہری تھے، سرکاری اہل کار نہیں تھے۔
نائب صدر سے غلط بیانی سے کام لیا
تاہم، وائٹ ہاؤس ترجمان نے کہا کہ ٹرمپ اس نتیجے پر پہنچنے کہ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے سے پہلےجنوری میں فلن نے نائب صدر مائیک پینس کے ساتھ غلط بیانی سے کام لیا۔ اُنھوں نے پینس کو بتایا کہ اُنھوں نے روسی سفیر کے ساتھ سابق صدر براک اوباما کی جانب سے تعزیرات عائد کرنے کے بارے میں گفتگو نہیں کی تھی، جن کے خیال میں روس نے امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت کی تاکہ ٹرمپ کو فتح دلائی جا سکے۔
فلن نے اپنے استعفے میں یہ بات تسلیم کی کہ اُنھوں نے ٹرمپ کی جانب سے عہدہٴ صدارت سنبھالنے سے کچھ ہی ہفتے قبل، پینس اور دیگر حضرات کو کسلیاک سے گفتگو کے بارے میں’’غیردانستہ طور پر نامکمل اطلاع پر مبنی بریفنگ‘‘ دی۔
ایسے میں جب وائٹ ہاؤس ڈراما نمودار ہو رہا تھا، ٹرمپ نے منگل کے روز اِس کی اہمیت کو گھٹا کر پیش کیا۔ اُنھوں نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں تحریر کیا کہ ’’اِس کی اصل کہانی یہ ہے کہ واشنگٹن سے بے ضابطہ افشا ہونے والے رازوں میں سے یہ ایک راز ہے۔ جب میں شمالی کوریا سے نمٹوں گا، کیا تب بھی اس طرح راز افشا ہوں گے؟‘‘
کانگریس کا ردِ عمل
ڈیموکریٹک پارٹی کے کلیدی قانون سازوں نے فلن اور ٹرمپ کے دیگر مشیروں کے روس کے ساتھ روابط پر وسیع تر تفتیش کا مطالبہ کیا ہے، جب کہ گذشتہ سال امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی اِس نتیجے پر پہنچی تھی کہ روس نے امریکی انتخابات میں مداخلت کی تھی۔
ٹرمپ کی ناقد، ڈیموکریٹک سینیٹر، الزبیتھ وارن نے کہا ہے کہ ’’یہ کوئی عام معاملہ نہیں ہے‘‘۔