امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر مائیکل فلین نے ان خبروں کے بعد کہ انھوں نے امریکہ میں روسی سیفر کے ساتھ اپنے رابطوں کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کو گمراہ کیا تھا، استعفیٰ دے دیا ہے۔
فلین کا استعفیٰ ٹرمپ انتظامیہ کے وجود میں آنے سے تقریباً ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں سامنے آیا ہے جسے مبصرین صدر کی اعلیٰ مشاورتی ٹیم کے لیے ایک دھچکہ قرار دیتے ہیں۔
وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے متعمد ترین ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں جو صدارتی مہم کے دوران بھی پیش پیش رہے، لیکن ان کے روس کے ساتھ رابطوں پر دیگر اعلیٰ مشیروں کو تحفظات بھی رہے ہیں۔
فلین نے ابتدائی طور پر ٹرمپ کے مشیروں کو بتایا تھا کہ انھوں نے انتقال اقتدار کے زمانے میں روس پر امریکی پابندیوں سے متعلق روسی سفیر کو آگاہ نہیں کیا تھا۔ بظاہر فلین کی طرف سے فراہم کردہ معلومات پر انحصار کرنے والے نائب صدر مائیک پینس ان کے اس موقف کی تائید کرتے رہے ہیں۔
بعد ازاں فلین نے وائٹ ہاوس کے عہدیداروں کو بتایا تھا کہ شاید انھوں نے روسی سفیر سے پابندیوں کے بارے میں بات کی ہے۔
اپنے استعفے میں فلین کا کہنا تھا کہ تیزی سے رونما ہونے والے واقعات پر انھوں نے نائب صدر پینس کو اپنے روسی رابطوں سے متعلق نامکمل معلومات کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔
جنرل کیتھ کیلوگ کو عبوری طور پر قومی سلامتی کا مشیر نامزد کیا گیا ہے۔
اس صورتحال سے واقفیت رکھنے والے دو لوگوں کا کہنا ہے کہ محکمہ انصاف نے ٹرمپ انتظامیہ کو مائیکل فلین کے روسی رابطوں سے متعلق خبردار کیا تھا۔
ان میں سے ایک شخص کے بقول محکمہ انصاف نے انتظامیہ کو بتایا تھا کہ جو کچھ وائٹ ہاوس فلین کے رابطوں کے بارے میں کہہ رہا ہے اور حقیقت میں جو معاملہ ہے ان دونوں میں تضاد ہے۔
دونوں افراد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ معلومات فراہم کی۔