رسائی کے لنکس

اسرائیل کو امریکی ہتھیاروں کی فراہمی ،وائٹ ہاؤس نے کانگریس کو نظرانداز کیوں کیا؟


 صدر بائیڈن ، فائل فوٹو
صدر بائیڈن ، فائل فوٹو

وائٹ ہاؤس نے اسرائیل کو امریکی ہتھیاروں کی منتقلی پر کانگریس کی نگرانی کو مؤثر بنانے سے متعلق ڈیموکریٹ قانون سازوں کے سوالات کو نظر انداز کر د یا ہے۔

قومی سلامتی کونسل کے جان کربی نے جمعرات کو وائٹ ہاؤس کی ایک نیوز بریفنگ کے دوران وائس آف امریکہ کے سوال کے جواب میں کہا، کہ ظاہر ہے کہ ہم عمومی طور پر، کانگریس کی نگرانی کی ذمہ داریوں کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔

قومی سلامتی کونسل کے جان کربی نے یہ بھی کہا کہ "ہم کانگریس کو مناسب طور پر مطلع کرنے اور مشورہ کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں کیونکہ ہم اسرائیل سمیت دیگر ممالک کو غیر ملکی فوجی امداد فراہم کرتے ہیں۔"

حان کربی وائٹ ہاؤس کی بریفنگ میں۔فائل فوٹو
حان کربی وائٹ ہاؤس کی بریفنگ میں۔فائل فوٹو

صدر جو بائیڈن کی اپنی پارٹی کے سینیٹرز کا ایک گروپ، جس کی قیادت سینیٹر ٹم کین کر رہے ہیں، قومی سلامتی کے ضمنی فنڈنگ بل میں ایک شق میں ترمیم پر کام کر رہا ہے۔ یہ شق غیر ملکی فوجی مالیاتی پروگرام کے تحت اسرائیل کے لیے امریکی امداد کی نگرانی کے تقاضوں سے استثنیٰ فراہم کرتی ہے۔

سینیٹر کین انتظامیہ کی اس درخواست کو روکنا چاہتے ہیں جس سے اسے قانون سازوں کو بتائے بغیر اسرائیل کو ساڑھے تین ارب ڈالر تک کے فوجی ساز و سامان اور ہتھیاروں کی فروخت کی اجازت مل جائے گی۔

یہ 20 اکتوبر کو کانگریس کو بھیجی گئی 106 ارب ڈالر کی اضافی قومی سلامتی کی فنڈنگ کی درخواست کا حصہ ہے۔

اگر انتظامیہ کی درخواست منظور ہو جاتی ہے، تو اس استثنیٰ سے ٰ اسرائیل کو ہتھیاروں کی منتقلی پر قانون سازوں کی نگرانی کے اختیارات مزید کم ہو جائیں گے۔

انتظامیہ پہلے ہی غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد کانگریس کو نظرثانی کے لیے درکار 15 دن کے مقررہ تقاضے کو نظر انداز کر کے اسرائیل کو 9 دسمبر کو 14 کروڑ 75 لاکھ اور 29 دسمبر کو 10 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کا فوجی سازو سامان فراہم کر چکی ہے جس کے لیے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے ایمرجنسی اختیارات سے کام لیا، جس کا استعمال شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔

ڈیموکریٹک سینیٹر برنی سینڈرز نے کین کی ترمیم سے علیہدہ ایک قرارداد پیش کی ہے جس میں یہ لازمی قرار دیا گیاہے کہ بائیڈن انتظامیہ یہ رپورٹ کرے کہ آیا اسرائیل نے غزہ میں انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی کی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اسلحے کی منتقلی اور فراہم کردہ فوجی امداد امریکی قانون اور بین الاقوامی قانون کے مطابق ہے۔

کانگریس اگلے ہفتے اس قرارداد پر ووٹنگ کرے گی۔

خلاف ورزی کا کوئی اشارہ نہیں ملا

قومی سلامتی کونسل کے جان کربی نے یہ بات زور دے کر کہی کہ انتظامیہ کی طرف سے اسرائیل کو غیر ملکی فوجی امداد "منشا اور قانون کی روح" کے مطابق دی جاتی ہے۔ انہوں نے یہ بات بھی دوہرائی کہ انتظامیہ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت پر شہری ہلاکتوں کو کم کرنے پر زور دے رہی ہے،۔

تاہم واشنگٹن فعال طور پر یہ جائزہ نہیں لے رہا ہے کہ آیا اسرائیل مسلح تصادم کے قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے کیونکہ اسے اپنی فوجی مہم چلانے میں اسرائیل کی دفاعی افواج کی طرف سے حماس کے خلاف اس طرح کی خلاف ورزی کا کوئی اشارہ نظر نہیں آیا۔

وہ اس بات کی تصدیق نہیں کریں گے کہ آیا اسرائیل کو بھی اسی معیار پر رکھا جا رہا ہے جیسا کہ امریکی ہتھیار حاصل کرنے والے دوسرے ممالک کو۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ بائیدن انتظامیہ امریکی ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق اپنی توقعات کے بارے میں "بہت واضح" ہے۔

ہتھیاروں کی فراہمی کے نئے قواعد

بائیڈن انتظامیہ نے یہ یقینی بنانے کے لیے طریقہ کار میں بہتری کی خاطر رہنما اصول ترتیب دیے ہیں کہ امریکی ہتھیاروں کا استعمال شہریوں کو نقصان پہنچانے کے لیے نہ کیا جائے، جو ایک طرح سے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے 2019 میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اردن کو ہتھیاروں کی فروخت میں کانگریس کو نظرانداز کرنے کے لیے ہنگامی اختیار کے استعمال کا ردعمل ہے۔

اس وقت ٹرمپ انتظامیہ نے اس کی وجہ ایران کی جانب سے خطرے کو قرار دیا تھا۔

روایتی ہتھیاروں کی منتقلی سے متعلق بائیڈن انتظامیہ کے طے کردہ 2023 کے رہنما اصولوں میں واشنگٹن کو اس خطرے پر غور کرنے کا پابند کیا گیا ہے کہ آیا ہتھیار حاصل کرنے والاملک انہیں انسانی حقوق یا بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی میں استعمال تو نہیں کر تا ۔ یہ جائزہ دستیاب معلومات اور متعلقہ حالات اور 2023 کا ’سویلین ہارم انسیڈینٹ ریسپانس گائیڈنس‘ ترتیب دیتا ہے ۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ ان ہدایات کا اطلاق اسرائیل کو بھیجے جانے والے امریکی ہتھیاروں پر نہیں ہوتا۔

ناقدین کیا کہتے ہیں؟

بائیڈن کے مقرر کردہ کئی سیاسی اور انتظامی عہدیدار بائیڈن کی اسرائیل کے لیے بہت زیادہ حمایت پر احتجاجاً مستعفی ہو چکے ہیں جن میں اسلحے کی منتقلی سے متعلق محکمہ خارجہ کے بیورو کے ایک سابق ڈائریکٹر جاش پال بھی شامل ہیں۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہاکہ اگر آپ یوکرین پر روس کے حملے ، اسپتالوں اور الیکٹرک پاور گرڈ پر حملوں میں امریکی موقف دیکھیں اور یہ دیکھیں کہ امریکہ ان کی مذمت کتنی جلدی کرتا ہے جب کہ اسرائیل کے معاملے میں جہاں ہمارے ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں، ان کے مطابق سب ٹھیک ہے۔

دوسری جانب جوئش انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی آف امریکہ کے صدر مائیکل میکووسکی کہتے ہیں کہ اسرائیل کو حماس کے خلاف اپنی مہم جاری رکھنے اور لبنان میں ایران کی دہشت گرد پراکسی حزب اللہ کے مقابلے کے لیے بہت زیادہ گولہ بارود کی ضرورت ہے۔

(پیٹسی ویڈکوسوارا، وی او اے نیوز)

فورم

XS
SM
MD
LG