رسائی کے لنکس

اربوں سال پہلے زمین پر زندگی کیسے شروع ہوئی؟


کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ زمین پر وائرس جیسی خوردبینی شکل میں جنم لیا اور پھر وقت کے سفر کے ساتھ ان گنت روپ دھار لیے۔
کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ زمین پر وائرس جیسی خوردبینی شکل میں جنم لیا اور پھر وقت کے سفر کے ساتھ ان گنت روپ دھار لیے۔
  • زندگی کے ابتدائی اشارے زمین بننے کے تقریباً 60 کروڑ سال کے بعد ملتے ہیں۔
  • زمین کو وجود میں آئے ساڑھے چار ارب سال ہو چکے ہیں۔
  • قیاس ہے کہ زندگی اپنی ابتدائی شکل میں وائرس یا ایک خلیے پر مبنی آبی جاندار جیسی تھی۔
  • ایک نظریہ یہ ہے کہ کرہ ارض پر سازگار ماحول بننے کے بعد زندگی کا جنم یہیں سے ہوا۔
  • ایک اور نظریے میں بتایا گیا ہے کہ زندگی کسی شہابیے کے ذریعے خلا سے آئی اور خود کو ماحول کے مطابق ڈھال لیا۔
  • ایک زندہ خلیہ مخلتف چیزوں کے اربوں ایٹموں کے ایک خاص ترتیب میں ملنے سے بنتا ہے۔ یہ سوال اب بھی تشنہ ہے کہ یہ اربوں ایٹم آپس میں کیوں اور کیسے ملتے ہیں۔

اس زمین پر زندگی سب سے پر اسرار چیز ہے۔ زندگی کہاں سے آئی، کوئی نہیں جانتا۔ اس بارے میں کئی سائنس دانوں اور فلسفیوں نے اپنے اپنے نظریات پیش کیے ہیں مگر ان میں سے ابھی تک کسی نظریے کی بھی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

زمین تقریباً ساڑھے چار ارب سال پہلے وجود میں آئی تھی۔ تب یہ کائنات کے بہت سے دیگر سیاروں کی طرح ایک ویران تھی اور یہاں لگ بھگ 20 کروڑ سال تک سناٹوں کا راج رہا۔

زندگی کے ابتدائی آثار تین ارب 70 کروڑ سال پرانے ہیں

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ چار ارب 30 کروڑ سال پہلے کرہ ارض کے ماحول میں ایسی تبدیلیاں آنا شروع ہوئیں جو زندگی کے لیے سازگار تھیں۔ تاہم زندگی کے اولین آثار تین ارب 70 کروڑ سال پہلے ظاہر ہونا شروع ہوئے، جو پانی، خشکی اور چٹانوں میں فاسل کی شکل میں تھے۔

فاسل کسی مردہ چیز کے اس بچے کچے حصے کو کہتے ہیں جو وقت کے سفر میں شکست و ریخت سے بچ گیا ہو۔ ماہرین کو ملنے والے قدیم ترین فاسل ذرات کی شکل میں چٹانوں سے چپکے ہوئے تھے، جو صرف قیاس آرائی میں مدد دے سکتے تھے۔

زندگی کی ابتدائی شکل کیا تھی؟

زندگی کی ابتدائی شکل کے بارے میں دو بنیادی نظریات ہیں۔ پہلا یہ کہ زمین کا ماحول سازگار ہونے پر پانی میں زندگی کا جنم ہوا۔ اپنی ابتدائی شکل میں زندگی ایک خلیے پر مشتمل جراثیمی شکل میں تھی۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ زندگی کہیں باہر سے آئی اور یہاں کے سازگار ماحول میں تیزی سے پروان چڑھی اور اس نے بے حد و حساب اشکال اور روپ اختیار کر لیے۔

لیکن ان دونوں نظریات کو ثابت کرنے کے لیے ایسے ٹھوس حقائق اور شواہد موجود نہیں ہیں جو سائنس کی کسوٹی پر پورے اتر سکیں۔

اربوں سال پرانا زمینی ماحول پیدا کرنے کا تجربہ

یہ ذکر ہے 1952 کا۔ یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے ایک گریجویٹ اسکالر اسٹینے ملر نے کیمسڑی کے نوبیل انعام یافتہ پروفیسر ہیرلڈ یوری کے نگرانی میں ایک سائنسی تجرے میں ویسا ہی قدرتی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جو زمین پر چار ارب 30 کروڑ سال پہلے تھا۔ انہوں نے ایک ٹیسٹ ٹیوب میں امونیا، میتھین گیس اور پانی کے بخارات میں سے بجلی کا سپارک اسی طرح گزارا جس طرح بادلوں میں بجلی چمکتی اور کڑکتی ہے۔

اس تجربے کے نتیجے میں ایمنو ایسٹد پیدا ہوئے۔ ایمنوایسڈ زندہ اجسام کے پروٹین بنانے والے خلیوں کے بنیادی جزو ہیں۔ وہ دونوں اس نتیجے پر پہنچے کہ کرہ ارض کے ابتدائی دور کے ماحول میں زندہ اجسام کے خلیے اسی طرح بنے ہوں گے اور پھر زندگی شروع ہو گئی ہو گی۔

لیکن یہ سوال پھر بھی تشنہ رہا کہ ایمنو ایسڈ اور پروٹین تو بن گئے لیکن ان میں زندگی کیسے آئی اور انہوں نے جینا کیسے شروع کیا۔

کیا زندگی خلا سے زمین پر آئی؟

ناسا کے ایک سائنس دان اسکاٹ سٹنفرڈ اور کیلی فورینا یونیورسٹی کے جیو فزیکل سائنسز کے پروفیسر فریڈ سیسلا نے اس سوال کا جواب اپنی ایک ریسرچ میں دیا۔ جس کے مطابق نظام شمسی کی تخلیق کے وقت جب شہابیے بن رہے تھے تو کچھ ایسے نامیاتی مرکبات بھی پیدا ہوئے جنہوں نے زندگی کی تخلیق میں کردار ادا کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ سیاوں پر خلا میں گردش کرنے والے شہابیوں کی بارش ہوتی رہتی ہے۔ زمین بھی اکثر ان کی زد میں آتی ہے لیکن زیادہ تر شہابیے فضائی کرے میں ہی ہوا کی رگڑ سے جل کر راکھ ہو جاتے ہیں۔ لیکن کچھ بڑے شہابیے زمین پر پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

سن 1969 میں ایک شہابیہ آسٹریلیا میں گرا تھا جسے مرچیسن کا نام دیا گیا تھا۔ اس شہابیے کے تجزیے سے پتہ چلا تھا کہ اس میں درجنوں ایسے ایمنو ایسڈ موجود تھے جو زندہ اجسام کے خلیوں کی ساخت کا بنیادی جز ہوتے ہیں۔

بعد ازاں 2019 میں اٹلی اور فرانس کے ماہرین نے جنوبی افریقہ کے ایک آبی ذخیرے کی تہہ ملنے والی تین ارب 30 کروڑ سال پرانی چٹان پر شہابیے کے ذرات دریافت کیے تھے جن میں ایمنو ایسڈ موجود تھا۔

اس کے بعد 2022 میں اس نظریے کو تقویت جاپان کے خلائی مشن ہایابوسا۔2 سے ملی۔ جاپان نے یہ راکٹ 2014 میں ایک شہابیے یوگو کی جانب روانہ کیا تھا جو تین کروڑ 20 لاکھ کلومیٹر کا سفر طے کر کے اپنی منزل تک پہنچا۔

اس شہابیے کے بارے میں خیال ہے کہ یہ ہمارے نظام شمسی کی تخلیق کے دوران وجود میں آیا تھا۔ راکٹ نے واپسی کا سفر شروع کرنے سے پہلے شہابیے سے کچھ نمونے اکھٹے کیے جن پر ٹوکیو اور ہیروشما کی یونیورسٹیوں سمیت خلائی تحقیقی اداروں میں ریسرچ ہوئی۔ اس شہابیے پر پانی اور 20 قسم کے ایمنو ایسڈز کی موجودگی کا پتہ چلا۔

زندہ اجسام کی خلیوں میں کیا ہوتا ہے؟

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زندہ اجسام کے خلیے پانی اور ایسے مالیکولز سے مل کر بنتے ہیں جن میں کاربن بنیادی جزو کے طور پر موجود ہوتا ہے۔ زندگی کے لیے ضروری ہے کہ خلیہ اپنی حقیقی نقل تیار کر سکے۔ یہ ایک تخلیقی اور اپنی نسل آگے بڑھانے کا عمل ہے۔ اگر نسل نہ بڑھے تو زندگی کا وجود ختم ہو سکتا ہے۔

Faiz ul Hassan Nasim is Professor of Biochemistry in Department of Life Sciences, SBA School of Science and Engineering, LUMS University, Lahore
پروفیسر ڈاکٹر فیض الحسن نسیم، لائف سائنسز ڈیپارٹمنٹ ، لمیس یونیورسٹی لاہور

لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز (LUMS) میں بائیو کیمسٹری کے پروفیسر ڈاکٹر فیض الحسن نسیم کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں پہلی کامیابی 1982 کے لگ بھگ اس دریافت سے ہوئی کہ آر این اے اپنی نقل تیار کر سکتا ہے۔

ڈی این اے اور آر این اے کا زندگی سے کیا تعلق ہے؟

ڈی این اے کا نام تو آپ نے اکثر سنا ہو گا۔ آر این اے بہت حد تک ڈی این اے جیسا ہی ایک خلیہ ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے اتنے قریب ہیں کہ کزن کہلاتے ہیں۔ یہ دونوں اربوں ایٹموں سے بنی ایک زنجیر کی شکل میں ہوتے ہیں۔ ڈی این اے کے اندر زندگی سے متعلق سارا ڈیٹا اور ہدایات موجود ہوتی ہیں۔ جب کہ آر این اے اس جنیاتی ڈیٹا کی نقل تیار کر کے اگلے خلیے میں منتقل کر دیتا ہے۔

ڈاکٹر نسیم کہتے ہیں کہ ایک نظریہ یہ ہے کہ زندگی کی اولین شکل وائرس تھی کیونکہ اس کی ساخت سادہ ترین ہے۔ مگر وائرس اپنے طور پر زندہ نہیں رہ سکتا۔اسے جینے اور اپنی نسل آگے بڑھانے کے لیے ایک میزبان کی ضرورت ہوتی ہے۔ وائرس کسی جاندار خلیے میں رہتے ہیں، پرورش پاتے ہیں اور اپنی نسل آگے بڑھاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر دنیا کی پہلی زندہ مخلوق وائرس ہے تو اسے زندہ رکھنے والا میزبان کون تھا۔

اپنے بل بوتے پر زندہ رہنے والا دنیا کا سب سے چھوٹا جاندار جراثیم ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ زندگی کی ابتدا پانی سے ہوئی۔ پہلے پہل پانی کے جاندار وجود میں آئے۔ پھر ایسے جاندار تخلیق ہوئے جو پانی اور خشکی دونوں جگہ رہ سکتے تھے۔ پھر خشکی کے رینگنے والے اور بعد ازاں پاؤں پر چلنے والے جانداروں کا ظہور ہوا اور آخر میں اڑنے والے جاندار وجود میں آئے۔

زمین پر کتنی اقسام کے جاندار موجود ہیں؟

کوئی نہیں جانتا کہ اس وقت کرہ ارض پر کتنی اقسام کے جاندار موجود ہیں۔ تاہم قیاس ہے کہ ان کی تعداد 87 لاکھ سے زیادہ ہے۔ جب کہ انسان ابھی تک محض چند ہزار اقسام سے ہی آگاہ ہو سکا ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ابھی تک خشکی پر رہنے والے 86 فی صد اور پانی میں رہنے والے 91 فی صد جاندروں کی اقسام کے متعلق ہمارے پاس معلومات نہیں ہیں۔

ڈاکٹر نسیم کا کہنا ہے کہ زندگی کی تخلیق کے بعد اس کے ارتقائی سفر کے بارے میں کئی نظریات موجود ہیں جن میں سے ڈاون کا نظریہ زیادہ مقبول ہوا۔ لیکن اس سوال کے جواب کی تلاش اب بھی ادھوری ہے کہ اس زمین پر جہاں لاکھوں اقسام کے جاندار اپنی اپنی زندگی جی رہے ہیں، وہاں سب سے پہلا جاندار کب اور کیسے تخلیق ہوا تھا اور اس کی جینیاتی ساخت کیسے تشکیل پائی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ہماری تلاش کا سفر ’بگ بینگ‘ سے شروع ہوتا ہے جس کے نتیجے میں کائنات بنی، نظام شمسی وجود میں آئے اور ہماری زمین کی تشکیل ہوئی۔ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا، ہم کچھ بھی نہیں جانتے۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG