رسائی کے لنکس

لاکھوں برس کی کہانی سنانے والا برف کا عجائب گھر


کوپن ہیگن میں قائم برفانی عجائب گھر میں پروفیسر ہزاروں سال پرانی برف کے ایک ٹکڑے کا معائنہ کر رہے ہیں۔
کوپن ہیگن میں قائم برفانی عجائب گھر میں پروفیسر ہزاروں سال پرانی برف کے ایک ٹکڑے کا معائنہ کر رہے ہیں۔

آج کے دور میں جب فضائی آلودگی کا ذکر کثرت سے ہوتا ہے، کیاکبھی آپ کے ذہن میں یہ خیال آیا ہےکہ پیغمبر عیسیٰ کے زمانے میں ہوا کیسی تھی اور جب اسلام پھیلنا شروع ہوا تو دنیا میں آب و ہوا کی صورتِ حال کیا تھی؟

اور پھر صدیوں کے بعد جب کرسٹوفر کولمبس نے اپنے طویل بحری سفر میں عظیم سمندروں کو عبور کر کےامریکہ کی سرزمین پر قدم رکھا تواس وقت لوگ کس طرح کی ہوا میں سانس لیتے تھے۔

اس سے بھی بہت پہلے، ہزاروں سال قبل، جب انسان کا زمین پرجنم نہیں ہوا تھا تو کرۂ ارض پر چلنے والی ہوا کے جھونکے کیسے ہوتے تھے؟

ان سوالوں کے جواب برف کے ان بڑے بڑے ٹکڑوں میں محفوظ ہیں جو یورپی ملک ڈنمارک کے مرکزی شہر کوپن ہیگن کے ایک عجائب گھر میں رکھے گئے ہیں۔

اپنی نوعیت کا مختلف اور منفرد یہ عجائب گھر ایک بہت بڑا برف خانہ ہے جہاں شیلفوں پر رکھے گئے خصوصی ڈبوں میں تاریخ کے مختلف ادوار کی برف کے نمونے محفوظ ہیں۔

یہ ٹکڑے اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ اگر انہیں ایک قطار میں رکھ دیا جائے تو وہ 25 کلومیٹر تک پھیل جائیں گے۔

کوپن ہیگن کے فیروزن میوزیم میں برف کے بلاک شیلفوں میں رکھے گئے ہیں۔
کوپن ہیگن کے فیروزن میوزیم میں برف کے بلاک شیلفوں میں رکھے گئے ہیں۔

اب آپ یہ کہیں گے کہ ہزاروں سال پرانی برف کے ٹکڑے عجائب گھر والوں کے ہاتھ کہاں سے لگے۔ تو سادہ الفاظ میں اس کا جواب ہے گلیشیئر ز۔

آپ کو معلوم ہے پہاڑوں کی چوٹیوں اور قطبی علاقوں میں سردیوں کے موسم میں برف پڑتی ہے۔ جب کہ گرمیوں میں برف پگھل جاتی ہے لیکن ان علاقوں میں جہاں درجہ حرارت کم رہتا ہے۔ ساری برف پگھل نہیں پاتی۔، حتیٰ کہ دوبارہ برف باری کا موسم آجاتا ہے اور برف کی پرانی تہہ پر برف کی نئی پرتیں جم جاتی ہیں۔

گلیشیئرز اسی طرح وجود میں آتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بعض گلیشیئرز کی تہیں میلوں موٹی ہیں جن کا تعلق گزرے ہوئے ہزاروں برس سے ہے۔

سائنس دانوں کے پاس ایسے طریقے موجود ہیں جس سے یہ تعین کیا جا سکے کہ برف کی تہہ کتنی پرانی ہے۔

گرین لینڈ کے ہیلیئم گلیشیئر کا ایک فضائی منظر۔
گرین لینڈ کے ہیلیئم گلیشیئر کا ایک فضائی منظر۔

اب آپ یہ پوچھیں گے کہ برف کا ہوا سے کیا تعلق ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب برف پڑتی ہے تو ہوا کی کچھ مقدار برف کے گالوں کے نیچے دب جاتی ہے۔ شدید ٹھنڈ کی وجہ سے روئی کے گالوں جیسی برف پتھر کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور ہوا کے بلبلے اس کے اندر پھنسے رہ جاتے ہیں۔ یہ اسی زمانے کی ہوا ہے جب برف کے گالوں نے اسے اپنے اندر جکڑا تھا۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ برف کے ان ٹکڑوں میں قید ہوا ہمیں یہ جاننے میں مدد دیتی ہے کہ تاریخ کے مختلف أدوار میں ہوا کی صورت حال کیسی تھی اور اس میں کثافتیں اور آلودگی کب اور کس سطح پر شامل ہونا شروع ہوئی۔ اس میں کیا کیا تبدیلیاں آئیں اور اس عمل میں انسان کا کیا کردار رہا۔

کوپن ہیگن یونیورسٹی میں گلیشیئرز کے موضوع کے ایک ماہر پروفیسر جارجین پیڈر سٹفن سن کا کہنا ہے کہ اس عجائب گھر میں رکھے گئے برف کے ٹکڑے دراصل آب و ہوا کی تبدیلیوں سے متعلق گزشتہ 10 ہزار برس کے دوران انسان کی سرگرمیوں کا ریکارڈ اور اعمال نامہ ہے۔

زمین کا درجۂ حرارت مسلسل بڑھنے سے دنیا بھر میں موسم تبدیل ہو رہے ہیں اور گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے آنے والے برسوں میں سمندر کی سطح نمایاں طور پر بڑھ جائے گی اور کئی ساحلی آبادیاں غرق ہو جائیں گی۔ گرین لینڈ میں گلیشیئر پگھلنے کے ایسے ہی مناظر سامنے آ رہے ہیں۔
زمین کا درجۂ حرارت مسلسل بڑھنے سے دنیا بھر میں موسم تبدیل ہو رہے ہیں اور گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے آنے والے برسوں میں سمندر کی سطح نمایاں طور پر بڑھ جائے گی اور کئی ساحلی آبادیاں غرق ہو جائیں گی۔ گرین لینڈ میں گلیشیئر پگھلنے کے ایسے ہی مناظر سامنے آ رہے ہیں۔

برف کے یہ ٹکڑے سٹفن سن کا آب و ہوا سے عشق کا نتیجہ ہیں۔

انہوں نے اپنی زندگی کے 43 برس گرین لینڈ میں گلیشیئرز کی کھدائی اور برف کے ٹکڑے اکھٹے کرنے میں گزارے۔

اسی دوران ان کی ملاقات آب وہوا کے شعبے کی ایک اور ماہر ڈورتھ ڈہل جینسن سے ہوئی اور برف کے عشق نے انہیں رشتہ ازواج میں باندھ دیا۔

سٹفن سن 1991 سے دنیا کے اس سب سے بڑے برف خانے کے انتظام اور ذمہ داری میں حصہ لے رہے ہیں۔

اس یخ عجائب گھر میں برف کے 40 ہزار سے زیادہ ٹکڑے ، بڑے سائز کے ڈبوں کے اندر شیلفوں پر سجے نظر آتے ہیں۔

سٹفن سن کہتے ہیں کہ برف کے ان بلاکس کی انفردیت یہ ہے کہ ان کے اندر قید ہوا کی عمر وہی ہے جو برف کے ٹکڑوں کی ہے۔یہ ہوا اسی زمانے کی ہے جب آسمان سے اترنے والی برف نے گلیشیئر پر اپنی تہہ بچھائی تھی۔

اس برفانی لائبریری کے دو حصے ہیں۔ بڑے حصے میں برف کے بڑے بڑے بلاک رکھے گئے ہیں جب کہ ایک چھوٹے ہال میں برف کے بلاکس سے لیے گئے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے رکھے گئے ہیں۔

یہ چھوٹا ہال گویا ایک طرح سے لائبریری میں رکھے گئے برف کے بلاکس کےمتعلق مختصر جائزے کا کام دیتا ہے ۔ مگر اس ہال میں جانے والوں کو اپنا کام انتہائی تیزی سے کرنا ہوتا ہے کیوں کہ اس کا درجۂ حرارت منفی 18 ڈگری سینٹی گریڈ رکھا گیا ہے تاکہ برف کے ٹکڑے ہر اعتبار سے محفوظ رہیں۔

بڑے ہال کا درجہ حرارت منفی 30 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ یہ ذہن میں رہے کہ صفر درجۂ حرارت پر پانی جم کر برف بن جاتا ہے۔

سٹفن سن کہتے ہیں کہ برف کے ان بلاکس میں ہوا کے بلبلے ننگی آنکھ سے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

اس برفانی عجائب گھر کی کہانی 1960 کے عشرے سے ہوتی ہے۔

اس دور میں ماہرین کی ایک ٹیم برفانی خطے گرین لینڈ کی کھدائی کرنے کے بعد برفانی چٹانوں کے ٹکڑے مزید تحقیق کے لیے اپنے ساتھ ڈنمارک لے آئی تھی۔

کلائمٹ سمٹ سی او پی 26 کے گلاسگو میں منعقدہ ایک کیمپ کا منظر جس میں گرین لینڈ سے لایا گیا گلیشیئر کا ایک بڑا ٹکڑا رکھا گیا ہے۔
کلائمٹ سمٹ سی او پی 26 کے گلاسگو میں منعقدہ ایک کیمپ کا منظر جس میں گرین لینڈ سے لایا گیا گلیشیئر کا ایک بڑا ٹکڑا رکھا گیا ہے۔

قدیم گلیشیئرز پر کھدائی کا کام گاہے گاہے ہوتا رہتا ہے۔ حالیہ عرصے میں سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے قدیم ترین برف کے نمونے حاصل کرنے کے لیے گرین لینڈ کے مشرقی حصے کے ایک گلیشیئر میں ڈھائی کلومیٹر سے زیادہ گہرائی تک کھدائی کی اور اس برف کے ٹکڑے نکالے جو لگ بھگ ایک لاکھ سال پہلے پڑی تھی۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ برف کی ان چٹانوں میں ایسی برف بھی شامل ہے جو لگ بھگ ایک لاکھ 20 ہزار سال پہلے پڑی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا میں اس جدید انسان کا جنم نہیں ہوا تھا جس کی ہم سب اولادیں ہیں۔

سائنس دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ برس پہلے زمین کے موسم آج کے دور سے مختلف تھے۔

گرین لینڈ جہاں اب برفانی چٹانوں کی میلوں موٹی تہیں جمی ہیں، وہاں کا درجۂ حرارت آج کی نسبت پانچ ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ہوا کرتا تھا۔

سٹفن سن کہتے ہیں کہ ایک لاکھ سے زیادہ سال پہلے کی دنیا آج کے مقابلے میں زیادہ گرم تھی لیکن اس وقت یہاں انسان موجود نہیں تھے۔

آب و ہوا کی تبدیلی سے گرین لینڈ کے گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ اس تصویر میں گرین لینڈ کے پگھلے ہوئے گلیشیئر میں برف کا ایک ٹکڑا تیر رہا ہے۔ یہ آئس برگ کہلاتے ہیں۔ ان کا تین چوتھائی حصہ پانی کے نیچے ہوتا ہے۔ بحری جہاز ٹائٹنک ایک ایسے ہی آئس برگ سے ٹکرا کر غرق ہوا تھا۔
آب و ہوا کی تبدیلی سے گرین لینڈ کے گلیشیئر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ اس تصویر میں گرین لینڈ کے پگھلے ہوئے گلیشیئر میں برف کا ایک ٹکڑا تیر رہا ہے۔ یہ آئس برگ کہلاتے ہیں۔ ان کا تین چوتھائی حصہ پانی کے نیچے ہوتا ہے۔ بحری جہاز ٹائٹنک ایک ایسے ہی آئس برگ سے ٹکرا کر غرق ہوا تھا۔

حالیہ عرصے میں حاصل ہونے والے برف کی قدیم ترین چٹانوں کے ٹکڑوں سے سائنس دانوں کو سمندروں کی بلند ہوتی ہوئی سطح اور پہاڑوں پر گھٹتی ہوئی برف کی تہہ کے درمیان تعلق کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔

اس سے ہم یہ بھی بہتر طور پر قیاس کر سکیں گے کہ مستقبل میں سمندر کی سطح بلند ہونے میں گرین لینڈ اور انٹارکٹیکا کا کتنا حصہ ہو گا۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ برف کی ہزاروں سال پرانی تہیں یہ جاننے کا واحد طریقہ ہیں کہ انسان کی پیدا کردہ آلودگی سے پہلے کرہ ارض کا فضائی ماحول کیسا تھا۔

سٹفن سن نے بتایا کہ مختلف ادوار کے برف کے ٹکڑوں کی مدد سے ہم نے ایک نقشہ بنایا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ فضا میں وقت کے ساتھ ساتھ گرین ہاؤس گیسوں، کاربن ڈائی اکسائیڈ اور میتھین کی مقدار میں کیا تبدیلی آئی۔

وہ کہتے ہیں کہ اس سے ہم یہ بھی جان سکتے ہیں کہ معدنی ایندھن جلانے سے ہوا کتنی آلودہ ہوئی۔

قدیم برفانی چٹانوں کو محفوظ کرنے کی ایک اور تنظیم ’پراجیکٹ آئس میموری فاؤنڈیشن‘ کے سربراہ جیروم شیپلاز کہتے ہیں کہ گرین لینڈ کی برف کی یاداشتوں کا ذخیرہ کرنا ایک قابل قدر کام ہے۔

جیروم چیپلاز کا مزید کہنا تھا کہ گرین لینڈ کی برف کی یاد داشت کو محفوظ رکھنا اور بھی زیادہ اہم ہے۔

اس تحریر کے لیے کچھ معلومات’ اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG