رسائی کے لنکس

چاند پر غار دریافت؛ خلا باز اس سے کیسے فائدہ اٹھا سکیں گے؟


چاند پر پہلی بار جولائی 1969 پر خلا باز اترے تھے اور اس کی سطح پر چہل قدمی کی تھی۔ اس ’اپولو-11‘ مشن کی قیادت امریکی خلا باز نیل آرم اسٹرانگ کر رہے تھے جو اس تصویر میں نظر آ رہے ہیں۔
چاند پر پہلی بار جولائی 1969 پر خلا باز اترے تھے اور اس کی سطح پر چہل قدمی کی تھی۔ اس ’اپولو-11‘ مشن کی قیادت امریکی خلا باز نیل آرم اسٹرانگ کر رہے تھے جو اس تصویر میں نظر آ رہے ہیں۔
  • سائنس دانوں کے مطابق چاند پر غار موجود ہیں۔
  • محققین نے جس ایک غار کی نشان دہی کی ہے وہ اس مقام کے قریب ہے جہاں پانچ دہائیوں قبل خلا بازوں نے چہل قدمی کی تھی۔
  • سائنس دانوں نے چاند پر ایسے سیکڑوں غار ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔
  • یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان غاروں کو مستقبل میں خلا باز قیام کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

ویب ڈیسک _ سائنس دانوں نے تصدیق کی ہے کہ چاند پر غار موجود ہیں اور یہ غار اس مقام کے قریب ہیں جہاں ساڑھے پانچ دہائیوں قبل پہلی بار خلا بازوں نے چاند پر چہل قدمی کی تھی۔

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق سائنس دانوں نے چاند پر ایسے سیکڑوں غار ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے جنہیں مستقبل میں خلا باز قیام کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔

اٹلی کے محققین کی قیادت میں کام کرنے والی سائنس دانوں کی ٹیم نے پیر کو رپورٹ کیا کہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ چاند پر سب سے گہرے مقام کے قریب بڑا غار ہے۔ یہ مقام اس جگہ سے 400 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے جہاں 1969 میں امریکہ کی خلائی گاڑی ’اپولو-11‘ کو اتارا گیا تھا۔

اپولو-11 پر سوار امریکی خلا باز نیل آرم اسٹرانگ پہلے شخص تھے جنہوں نے چاند کی سطح پر قدم رکھا تھا۔ ان کے ساتھ مشن پر جانے والے بز ایلڈرن دوسرے فرد تھے جنہوں نے چاند پر چہل قدم کی۔

چاند پر موجود یہ گہرا مقام لاوا اگلنے والے راستے، جسے لاوا ٹیوب کہا جاتا ہے، گرنے سے پیدا ہوا تھا۔ اس طرح کے لگ بھگ 200 گہرے مقامات چاند پر دریافت کیے جا چکے ہیں۔

محققین نے امریکی خلائی ادارے ’ناسا‘ کے آلات کا استعمال کرتے ہوئے ریڈار سے لی گئی تفصیلات کا تجزیہ کیا۔

چاند کس طرح سے وجود میں آیا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:08 0:00

سائنس دانوں نے چاند سے حاصل ہونے والی تفصیلات کا موازنہ زمین پر آتش فشاں سے لاوا اگلنے والی ’لاوا ٹیوبز‘ سے کیا۔

حالیہ تحقیق اور اس کا تجزیہ برطانیہ سے آن لائن شائع ہونے والے ’نیچر آسٹرونومی‘ میں شائع ہوئے ہیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ریڈار سے حاصل کی گئی معلومات سے چاند کی سطح پر موجود غار کے صرف ابتدائی حصے کی نشان دہی ہو رہی ہے۔

محققین نے تخمینہ لگایا ہے کہ یہ غار لگ بھگ 130 فٹ چوڑی اور کئی میٹر لمبی ہے۔ اس کی لمبائی اندازوں سے زائد بھی ہو سکتی ہے۔

اٹلی کی یونیورسٹی آف ٹرینٹو سے وابستہ لیونارڈو کیرر اور لورینزو بروزون کا کہنا تھا کہ چاند پر غار گزشتہ پانچ دہائیوں سے معما رہے ہیں۔ اب ان میں سے ایک کا ثابت ہونا ایک دلچسپ امر ہے۔

کیا چاند پر سیٹیلائٹ بھیجنا واقعی پاکستان کی بڑی کامیابی ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:17 0:00

سائنس دانوں کے مطابق چاند پر بڑے گڑھے ان مقامات پر ہیں جہاں کسی زمانے میں لاوا موجود تھا۔

چاند کے قطب جنوبی پر بھی اس طرح کے بڑے گڑھوں کی موجودگی کا امکان ہو سکتا ہے۔ یہ چاند کا وہ علاقہ ہے جہاں اس دہائی کے آخر تک امریکی خلائی ادارہ ناسا خلا بازوں کو بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

چاند پر کچھ گڑھے ایسے بھی ہیں جن پر مستقل سایہ رہتا ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان گڑھوں میں منجمد پانی ہو سکتا ہے جسے پینے اور راکٹوں کے ایندھن کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

امریکہ کے دو خلا بازوں نیل آرم اسٹرانگ اور بز ایلڈرن سمیت اب تک 12 خلا باز چاند پر قدم رکھ چکے ہیں۔ یہ تمام خلا باز امریکہ کے اپولو پروگرام کے تحت چاند پر گئے تھے۔

محققین کے مطابق چاند پر موجود گھڑے خلا بازوں کے چاند پر قیام کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔ اس طرح کے مقامات ایک قدرتی پناہ گاہ کا کام کر سکتے ہیں جہاں وہ سورج سے خارج ہونے والی تابکاری اور دیگر شعاعوں سمیت خلا میں زیرِ گردش چھوٹے چھوٹے پتھروں کے ٹکرانے سے بھی محفوظ رہ سکیں گے۔

محققین کے مطابق چاند کی سطح پر قیام گاہیں بنانا سائنس دانوں کے لیے ابتدا سے ایک وقت طلب اور کئی چیلنجز والا کام ہے۔

محققین نے امکان ظاہر کیا ہے کہ چاند پر موجود غاروں کے ذریعے سائنس دان یہ سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہیں کہ چاند کیسے وجود میں آیا اور اس کی سطح پر آتش فشاؤں کی کیا سرگرمیاں رہیں۔

اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے مواد شامل کیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG