رسائی کے لنکس

سوڈان: اقتدار پر قبضہ کرنے والے دو جنرلز ایک دوسرے کےخلاف کیوں لڑ رہے ہیں؟


آر ایس ایف کے کمانڈر جنرل محمد حمدان دقلو اور فوج کے سربراہ عبدالفتاح البرھان۔ فائل فوٹو۔
آر ایس ایف کے کمانڈر جنرل محمد حمدان دقلو اور فوج کے سربراہ عبدالفتاح البرھان۔ فائل فوٹو۔

افریقی ملک سوڈان میں دو جنرلز کے درمیان اقتدار حاصل کرنے کے لیے کم و بیش 18 ماہ سے جاری سرد جنگ اب براہ راست لڑائی اور خانہ جنگی کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔

اس لڑائی میں ایک فریق سوڈان کی فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح برہان ہیں جب کہ ان کے مقابل جنرل محمد حمدان دقلو ہیں جنہیں حمیدتی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ جنرل دقلو سوڈان کی ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے کمانڈر ہیں۔

قدرتی وسائل سے مالامال سوڈان کی آبادی ساڑھے چار کروڑ سے زائد ہے۔ یہ ملک سیاسی عدم استحکام اور فوجی بغاوتوں کی طویل تاریخ رکھتا ہے۔تاہم حالیہ تنازع کی کڑیاں اکتوبر 2021 میں ہونے والی فوجی بغاوت سے ملتی ہیں۔

فوج کے اقتدار پر قبضے سے قبل 2018 میں تین دہائیوں تک سوڈان پرحکمرانی کرنے والے صدر عمر البشیر کے خلاف مہنگائی کے خلاف احتجاج سے سوڈان میں سیاسی عدم استحکام کی نئی لہر کا آغاز ہوا تھا۔

یہ احتجاج ملک کے مختلف شہروں میں پھیلتا گیا اور اکتوبر 2021 میں سوڈان کی فوج نے عمر البشیر کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔

اقتدار پر قبضہ کرنے والی سوڈان کی فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح برہان تھے جو صدر عمر البشیر کے 30سالہ دور ہی میں نچلے رینک سے فوج کی سربراہی تک پہنچے تھے۔ بغاوت کے بعد وہ ملک کے حکمران بن گئے۔ انہیں اس بغاوت میں پیراملٹری فورس آر ایس ایف کے کمانڈر محمد حمدان دقلو کی مدد حاصل تھی۔

محمد حمدان کا تعلق دارفور سے ہے۔ ان کے زیرِ کمان پیرا ملٹری فورس آر ایس ایف 2013 میں قائم کی گئی تھی اور اسے حکومت کے خلاف ہونے والے احتجاج اور شورش کو کچلنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ 2017 میں آر ایف ایس کو خود مختار فورس بنانے کے لیے قانون سازی بھی ہوئی تھی۔

تنازع کا آغاز کیسے ہوا؟

اکتوبر 2021 میں جب فوجی بغاوت ہوئی تو اس وقت ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے بھی کئی سیاسی گروہ سرگرم تھے۔

فوجی بغاوت کے بعد عالمی دباؤ کے تحت فوج اور آر ایس ایف نے جمہوریت کے حامیوں اور سویلین گروپس کے ساتھ ایک عبوری معاہدہ کیا۔ لیکن اس معاہدے میں سیاسی عمل کا ابتدائی نقشہ دیا گیا تھا جب کہ کئی اہم مسائل پر بات نہیں کی گئی تھی۔

ملک میں انتقالِ اقتدار کے کسی حتمی معاہدے پر پہنچنے کے لیے جاری مذاکرات میں جنرل برہان اور جنرل دقلو کے درمیان کشیدگی بڑھتی گئی۔ ان کے اختلاف کا بنیادی نقطہ آر ایس ایف کو فوج میں ضم کرنے کے معاملہ تھا۔

سوال یہ درپیش تھا کہ آر ایس ایف کی قیادت اب کس کے ہاتھ میں ہوگی اور اس میں شامل افرادی قوت اور اسلحے پر کس کا کنٹرول ہوگا؟

جنرل حمید حمدان دقلو کی سربراہی میں آر ایس ایف نے اگرچہ قبائلی شورش اور جمہوریت نواز گروپس کو کچلنے میں ملوث رہی تھی۔ لیکن جنرل دقلو نے خود کو جمہوریت نواز گروپوں کا حامی ظاہر کرنا شروع کردیا۔ رواں برس مارچ میں انہوں نے جنرل برہان کو یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا کہ وہ اقتدار چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ جنرل برہان کی مخالف کرکے دقلو اپنے زیرِ قیادت پیرا ملٹری فورس پر عائد سنگین الزامات کا تاثر زائل کرنا چاہتے ہیں۔

مبصرین کے مطابق دسمبر میں ہونے والے معاہدے میں شامل ہونے کی وجہ سے جنرل دقلو فوج کے سربراہ جنرل برہان کے نائب کے بجائے اس معاملے میں ایک باقاعدہ فریق بن گئے تھے۔ اسی وجہ سے جنرل برہان کو جنرل دقلو کے عزائم سے متعلق خدشات لاحق ہوگئے تھے۔

لڑائی کا آغاز کیسے ہوا؟

جنرل برہان اور جنرل دقلو کے درمیان آر ایس ایف کو فوج میں ضم کرنے کا معاملہ طے نہیں پاسکا اور کئی ماہ تک جاری رہنے والی سرد جنگ 16 اپریل کو دو بدو لڑائی میں تبدیل ہوگئی۔

اس سے قبل آر ایس ایف نے خرطوم کے شمال میں مروی کے علاقے میں بھاری نفری تعینات کرنا شروع کردی تھی۔ یہ علاقے دریائے نیل کے کنارے ڈیم، ہوائی اڈے اور اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے اسٹریٹجک اعتبار سے اہم ہے۔

اس کے بعد آر ایس ایف نے خرطوم اور ملک کے دیگر علاقوں میں فوج کی قیادت کی اجازت کے بغیر بھاری تعداد میں نفری بھیجنا شروع کردی۔

اسی دوران 16 اپریل کو خرطوم کے جنوب میں ایک فوجی اڈے پر سوڈانی فوج اور آر ایس ایف کے درمیان جھڑپوں کا آغاز ہوگیا۔ دونوں ہی ایک دوسرے پر لڑائی شروع کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔

رفتہ رفتہ ان جھڑپوں نے سوڈان کے کئی اہم علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس دوران دارفور کے علاقے میں بھی جھڑپیں شروع ہوگئی۔ لڑائی کے دوران اقوامِ متحدہ کی تنصیبات بھی نشانہ بنیں اور ان پر لوٹ مار کی گئی۔

صورتِ حال کیا رُخ اختیار کرسکتی ہے؟

فوج کے دو دھڑوں میں جاری اس لڑائی کی وجہ سے دارلحکومت خرطوم میں خوراک کی قلت ہوگئی ہے اور کئی علاقوں میں لوٹ مار کے واقعات بھی پیش آرہے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق لڑائی میں کم و بیش 300 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوچکے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہوسکتی ہے کیوں کہ کئی علاقوں میں لاشیں گلیوں اور سڑکوں سے ابھی تک اٹھائی نہیں جاسکی ہیں۔

امریکہ کے دباؤ پر منگل 18اپریل کو متحارب گروپوں کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا تاہم یہ جنگ بندی 24 گھنٹے بھی برقرار نہیں رہ پائی۔ جنرل برہان اور جنرل داگالو نے ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کے الزامات عائد کیے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ سوڈان میں جنگ بندی کا فوری امکان کم ہے۔ جنرل برہان اور دقلو ایک دوسرے سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ان کے بقول لڑائی میں آنے والی شدت کی وجہ سے بھی دونوں گروپس کا فوری جنگ بندی کی جانب آنا مشکل ہوگا۔

دوسری جانب سوڈانی فوج اور آر ایس ایف کو اپنے بیرونی حامیوں کی جانب سے جنگ بندی کے لیے دباؤ کا سامنا ہے۔ تاہم خطے پر نظر رکھنےو الے ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں دھڑوں میں سے جب تک کوئی ایک لڑائی سے کم زور نہیں پڑتا تب تک ان کے مذاکرات کی میز پر آنے کے امکانات کم ہیں۔ البتہ بعض ماہرین عید کے ایام میں لڑائی کی شدت میں کمی کی توقع ظاہر کر رہے ہیں۔

اس تحریر کے لیے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ اور ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے معلومات لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG