رسائی کے لنکس

راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا سے کانگریس کو کیا ملا؟


بھارت میں حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی کی بھار ت جوڑو یاترا 12 ریاستوں سے ہوتے ہوئے 30 جنوری کو سرینگر میں ختم ہو گئی۔

راہل گاندھی نے گزشتہ برس سات ستمبر کو جنوبی ریاست تمل ناڈو کے کنیا کماری سے یاترا شروع کی تھی۔ راہل گاندھی تقریباً 4000 کلومیٹر پیدل چل کر سرینگر پہنچے تھے۔

کانگریس کے مطابق یاترا کا مقصد بھارتی عوام کے درمیان اتحاد پیدا کرنا تھا جنہیں بقول اس کے حکمرا ں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اقتصادی عدم مساوات اور مذہبی شدت پسندی کی بنیاد پر تقسیم کر دیا ہے۔

بی جے پی مذہب کی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنے کے الزام کی تردید کرتی ہے۔

راہل گاندھی اور دیگر کانگریسی رہنماؤں نے بارہا اس بات کا اعادہ کیا کہ اس یاترا کا کوئی سیاسی مقصد نہیں تھا۔ لیکن مبصرین کے خیال میں یہ یاترا سیاسی مقصد سے ہی نکالی گئی تھی۔

ان کے مطابق اس کا ایک مقصد کانگریس پارٹی کو جو کہ 2014 کے بعد سے مسلسل شکست سے دوچار ہے متحد کرنا اور اس میں نئی جان ڈالنا تھا اور دوسرا اگلے سال ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو شکست دینا ہے۔

اب اس بات کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ یاترا سے کانگریس کو کیا فائدہ پہنچا۔ کانگریس کے قومی ترجمان میم افضل کا کہنا ہے کہ یاترا اپنے آپ میں کامیاب رہی ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ خود کانگریس پارٹی کو پہنچا ہے۔ پارٹی کارکنو ں کی سستی و کاہلی دور ہو گئی ہے اور سب نئے سرے سے سرگرم ہو گئے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ دوسرا بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ راہل نے نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے کا جو نعرہ دیا اس کا اثر دکھائی دینے لگا ہے اور پورے ملک میں اس پر بات ہو رہی ہے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ خود راہل گاندھی کے امیج کو بھی فائدہ پہنچا ہے۔ اس یاترا کے توسط سے وہ ایک بین الاقوامی سیاسی رہنما کی حیثیت سے ابھرے ہیں کیوں کہ اس سے قبل دنیا میں کسی بھی شخص نے چار ہزار کلومیٹر کی مسلسل پیدل یاترا نہیں کی تھی۔

میم افصل نیم آستین کی سفید ٹی شرٹ میں کی جانے والی راہل کی یاترا کو مہاتما گاندھی کی جانب سے دھوتی پہن کر کی جانے والی یاترا کے مماثل قرار دیتے ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ جس طرح گاندھی نے اپنی یاترا کے جذبے کو گھر گھر پہنچایا تھا اسی طرح راہل نے بھی اپنی یاترا کے جذبے کو گھر گھر پہنچا دیا ہے۔

واضح رہے کہ راہل گاندھی نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھی جہاں کہ درجہ حرارت مائنس میں ہے، برف باری کے دوران بھی اسی ہاف ٹی شرٹ میں اپنی یاترا مکمل کی۔ اس موقع پر سابق وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ کو بھی نیم آستین کی سفید ٹی شرٹ میں راہل کے ساتھ چلتے ہوئے دیکھا گیا۔

بعد میں عمر عبد اللہ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ گرم کپڑو ں میں یاترا میں شامل ہونے گئے تھے لیکن جب راہل کے ساتھ انہیں تیز قدموں سے چلنا پڑا تو گرمی کا احساس ہوا اور انہیں یکے بعد دیگرے اپنے تمام گرم کپڑے اتار دینے پڑے۔

متعدد مبصرین اس یاترا کو سیاسی نقطہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ اس یاترا سے کانگریس کو کیا سیاسی فائدہ پہنچتا ہے۔

ان کے خیال میں رواں سال میں نو ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ ان کے نتائج اس بات کا پتا دیں گے کہ یاترا سیاسی طور پر کامیاب رہی یا نہیں۔


خیال رہے کہ رواں سال میں چھتیس گڑھ، کرناٹک، مدھیہ پردیش، راجستھان، تیلنگانہ، میگھالیہ، میزورم، ناگالینڈ اور تری پورہ میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ فروری سے ان کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس کے بعد اگلے سال پارلیمانی انتخابات ہوں گے۔ وزیر اعظم نریندر مودی تیسری بار اس عہدے پر فائز ہونے کے لیے الیکشن لڑیں گے۔

لیکن میم افضل راہل گاندھی کے اس بیان کا اعادہ کرتے ہیں کہ اس کا مقصد سیاسی نہیں تھا۔ بقول ان کے اس کا مقصد نفرت کا خاتمہ اور بڑے عوامی مسائل کو اجاگر کرنا تھا۔ راہل نے اپنی تقریروں اور نیوز کانفرنسز میں بارہا نفرت انگیزی، بے روزگاری، مہنگائی اور امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی خلیج کے معاملات کو اٹھایا۔

سینئر تجزیہ کار نیلانجن مکھوپادھیائے کا کہنا ہے کہ اس یاترا نے ملک میں ایک متبادل بیانیہ تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

ان کے بقول بی جے پی گزشتہ دس برسوں سے ملک میں ایک ایسا بیانیہ تیار کرتی رہی ہے جو ہندوتوا کے نظریے پر مبنی ہے۔ یہ یاترا اس کے بالمقابل ایک دوسرا نظریہ پیش کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔


اُنہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یاترا نے کانگریسی کارکنوں میں ایک نیا جوش پیدا کر دیا ہے لیکن کانگریس کو اس کا سیاسی و انتخابی فائدہ پہنچتا ہے یا نہیں یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔

ان کے خیال میں اس کے لیے کانگریس کو مزید اور مسلسل پروگرام کرنے ہوں گے۔ یاترا میں لوگوں کی بھیڑ تو آئی لیکن کیا وہ بھیڑ ووٹوں میں بھی تبدیل ہوگی اور بی جے پی کے ووٹ پر اثر پرے گا یہ کہنا بہت مشکل ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر کانگریس بھیڑ دیکھ کر خوش ہو جائے اور اسی پر اکتفا و اطمینان کر لے تو یاترا کا جو فائدہ ملنا چاہیے وہ نہیں ملے گا۔ کانگریس نے آگے کے پروگرامز تو بنائے ہیں لیکن انہیں عملی جامہ بھی پہنانا ہوگا۔ تاہم انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ راہل نے گزشتہ چند ماہ میں جو تازگی اور سرگرمی دکھائی ہے وہ اسے آگے بھی برقرار رکھیں گے۔

سینئر کانگریس رہنما کے سی وینو گوپال نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہاتھ سے ہاتھ جوڑو ابھیان‘ نامی ایک پروگرام ترتیب دیا گیا ہے جس کے تحت بلاک سطح پر پیدل یاترائیں کی جائیں گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس دوران ہر گھر کے دروازے پر دستک دی جائے گی۔ پارٹی کارکنوں کو راہل گاندھی کا ایک خط اور مودی حکومت کے خلاف فرد جرم کی ایک کاپی دی جائے گی۔ یاترا کے دوران نوجوانوں کو پارٹی سے جوڑنے کی کوشش کی جائے گی اور یہ پروگرام دو ماہ تک چلے گا۔

نئی دہلی کے انگریزی روزنامہ ہندوستان ٹائمز کے پولیٹیکل ایڈیٹر ونود شرما اس بات سے متفق ہیں کہ یاترا نے ایک متبادل بیانیہ تیار کیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ جموں کے کٹھوعہ میں یاترا میں شرکت کرنے والے ونود شرما نے ایک ٹی وی مباحثے میں کہا کہ یاترا سے جو متبادل بیانیہ تیار ہوا ہے اس سے ملک میں جمہوریت کے استحکام میں مدد ملے گی۔ انہوں نے بتایا کہ اس پوری یاترا پر تین ارب روپے خرچ ہوئے ہیں۔

تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق اس یاترا سے حزب اختلاف کو متحد کرنے کی جو بات کہی جا رہی تھی وہ دکھائی نہیں دی۔ حزب اختلاف کے متعدد بڑے رہنما یاترا سے دور رہے۔ سرینگر میں ہونے والے آخری پروگرام میں شرکت کے لیے حزب اختلاف کی 23 جماعتوں کو مدعو کیا گیا تھا لیکن صرف آٹھ جماعتوں کے نمائندے ہی پہنچے۔

نیلانجن مکھوپادھیائے بھی اس جانب اشارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جس اپوزیشن اتحاد کی توقع کی جا رہی تھی وہ نہیں ہوا۔

وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پارلیمانی انتخابات میں اپوزیشن کی جانب سے یہ کوشش ہونی چاہیے کہ بی جے پی امیدوار کے مقابلے میں حزب اختلاف کا صرف ایک متحدہ امیدوار کھڑا ہو۔ لیکن اس کا امکان کم ہے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ غیر بی جے پی ووٹ تقسیم ہو جائیں گے اور بی جے پی کو فائدہ پہنچے گا۔

البتہ وہ اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ ملک کا ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جو بی جے پی کے نظریے کا حامی نہیں ہے۔ اس طبقے کو بی جے پی کے خلاف متحد کرکے ایک پلیٹ فارم پر لانا اپوزیشن جماعتوں کا کام ہے جو بظاہر مشکل نظر آتا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG