فکاہیہ کالم نگار ندیم فاروق پراچہ کی یادداشت بہت اچھی ہے۔ اپنی عمدہ یادداشت کے سہارے وہ چار کتابیں لکھ کر داد حاصل کر چکے ہیں۔ انھیں خاص طور پر یاد رہتا ہے کہ کس شخص کو کس نام سے پکارنا ہے اور طنز کیسے کرنا ہے۔
ٹوئیٹر پر لاکھوں افراد انھیں فالو کرتے ہیں اور ان کی جملے بازی کا لطف اٹھاتے ہیں۔ لیکن شکاری کبھی کبھی خود بھی جال میں پھنس جاتا ہے۔
گزشتہ اتوار کو اسلام آباد لٹریچر فیسٹول میں ایک سیشن کا عنوان ’تبدیلی کے زمانے میں طنز و مزاح‘ تھا۔ ماڈریٹر ندیم فاروق پراچہ تھے جبکہ مہمانوں میں فصیح ذکا، علی آفتاب سید اور جارج فلٹن شامل تھے۔
جارج فلٹن وہی انگلش صحافی ہیں جنھوں نے جارج کا پاکستان نام کے پروگرام سے ملک گیر شہرت حاصل کی تھی اور سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے انھیں پاکستانی شہریت سے نوازا تھا۔ انھوں نے یوٹیوب پر دیسی جارج کے نام سے چینل بنایا ہے جس پر ایک ’آسٹریلوی خاتون‘ کے ساتھ دلچسپ شو پیش کرتے ہیں۔ اس میں دونوں اردو بولنے کی کوشش کرتے ہیں۔
گفتگو کے دوران ان ’آسٹریلوی خاتون‘ کا ذکر آیا اور پراچہ نے انھیں وسیم اکرم کی بیوی کہہ کر یاد کیا۔ حاضرین میں سے ایک خاتون کھڑی ہوئیں اور آواز لگائی کہ وسیم اکرم کی بیوی کا ایک نام بھی ہے۔ اس پر ایک قہقہہ پڑا اور ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔
ندیم فاروق پراچہ نے بعد میں بتایا کہ وہ شنیرا کا نام بھول گئے تھے اور یاد نہیں آ رہا تھا کہ ان کا نام کیا ہے۔ وہ ڈر رہے تھے کہ کہیں نام کا غلط تلفظ ادا نہ کر بیٹھیں۔
یہ قصہ شنیرا اکرم تک بھی پہنچا اور انھوں نے ٹوئیٹ کیا کہ آواز لگانے والی شاندار خاتون کون تھیں؟ لڑکی! مجھے تم سے محبت ہے۔
ایک علیحدہ ٹوئیٹ میں انھوں نے پراچہ کو نشانہ بنایا اور لکھا کہ اگر آپ ادبی محفل کے اسٹیج پر کسی کے بارے میں گفتگو کر رہے ہوں تو آپ کو کم از کم اسے اتنا احترام دینا چاہیے کہ اس کا نام لیں۔ میں سیلی بریٹی نہیں ہوں لیکن میں نے اپنا نام کمایا ہے۔ آپ کا بہت شکریہ۔