ڈاکٹر آصف فرخی اور امینہ سید کراچی لٹریچر فیسٹول کے بانی ڈائریکٹر تھے۔ نو سال تک ان کی زیر نگرانی پورے شان و شوکت سے جشن ادب منایا جاتا رہا۔ لیکن اب دونوں اس فیسٹول سے الگ ہوگئے ہیں اور آئندہ ماہ ایک نیا ادبی میلہ شروع کرنے والے ہیں۔ ’وائس آف امریکا‘ نے ڈاکٹر آصف فرخی سے ادبی میلے، ان کے جریدے اور کتابوں کے بارے میں گفتگو کی۔
سوال: کراچی لٹریچر فیسٹول آپ نے شروع کیا۔ نو سال سخت محنت کرکے اسے کامیاب ترین میلہ بنایا۔ اس سے الگ ہونے کی کیا وجہ ہوئی؟
ڈاکٹر آصف فرخی: الگ اپنی مرضی سے نہیں ہوئے، بلکہ حالات کچھ ایسے ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو ادارہ اسے سپورٹ کر رہا تھا، اس میں انتظامی تبدیلیاں آگئیں۔ فیسٹول کے لیے جتنا عرصہ پہلے منصوبہ بندی کی جاتی ہے وہ نہیں ہوئی۔ اس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ نئی انتظامیہ فیسٹول کے انعقاد میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہی۔ اس وجہ سے میں نے نئے فیسٹول کے بارے میں سوچا۔ امینہ سید میرے ساتھ ہیں جنھوں نے اپنا پرانا ادارہ چھوڑ دیا ہے۔
ایک وجہ تو یہ ہوئی۔ دوسرا سبب یہ کہ دس سال بڑا عرصہ ہوتا ہے۔ ایک ہی طرح سے فیسٹول منعقد کیا جارہا تھا اور اس کا دائرہ پھیلانے کی ضرورت محسوس ہورہی تھی۔ اسے مزید وسعت اور تنوع فراہم کرنے کا وقت آگیا تھا۔ یہ احساس ہوا کہ فیسٹول کی شناخت صرف کراچی نہ رہے بلکہ یہ پاکستان بھر میں پھیل جائے۔
سوال: آپ نے کے ایل ایف کے منتظم ادارے کی نئی انتظامیہ سے خود رابطہ کیوں نہیں کیا؟
ڈاکٹر آصف فرخی: میں پرانی ٹیم کے ساتھ رابطے میں تھا۔ لیکن اس بارے میں زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا، کیونکہ کے ایل ایف کے منتظم ادارے کی نئی انتظامیہ کے ساتھ معاملہ عدالت میں ہے۔
سوال: یہ معاملہ عدالت تک کیوں گیا؟ عدالت سے باہر طے کیوں نہیں کر لیا گیا؟
ڈاکٹر آصف فرخی: ہاں، اس کا بہت افسوس ہے۔ اگر مل بیٹھ کر معاملات طے کر لیتے اور عدالت کی نوبت نہ آتی تو اچھا ہوتا۔ ایک ادبی معاملہ خوش اسلوبی سے انجام پاتا۔ لیکن اس کے لیے دونوں طرف سے کوشش ہونی چاہیے تھی۔
سوال: آپ ایک اور اسپانسر کے ساتھ فیسٹول کر رہے ہیں، کہیں اس کے ساتھ بھی اختلافات نہ ہوجائیں؟
ڈاکٹر آصف فرخی: نیا فیسٹول اپنے بل بوتے پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ کسی ایک اسپانسر یا ڈونر کی ذمے داری نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی اسپانسر نہیں ہوگا تو فیسٹول ختم ہوجائے گا۔
سوال: لٹریچر فیسٹول پر لاکھوں یا شاید کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہوں گے۔ اتنا پیسہ کہاں سے آئے گا؟
ڈاکٹر آصف فرخی: ہمارے کئی اسپانسرز ہیں۔ ہم نے تخمینہ لگایا ہے اور مختلف لوگوں سے رابطہ کیا ہے جس کا اچھا رسپانس ملا ہے۔ ہم مکمل لاگت کے لیے کسی ایک ادارے پر انحصار نہیں کررہے، کیونکہ پھر تھوڑی سی مشکل ہوگی۔
سوال: اس فیسٹول میں کون کون سے بڑے ادیب آ رہے ہیں اور کیا یہ اسی ہوٹل میں منعقد ہوگا جہاں کئی سال سے ہورہا تھا؟
ڈاکٹر آصف فرخی: ہمارا فیسٹول گورنر ہاؤس کراچی کے لان میں منعقد ہوگا۔ ہم ہوٹل میں منعقد نہیں کرسکتے، کیونکہ ہمیں ایسا نہیں کرنے دیا گیا۔ اس ادبی میلے میں پچپن سیشن ہوں گے اور تقریباً سو ادیب شرکت کریں گے۔ ان میں غیر ملکی ادیب بھی شامل ہوں گے۔
سوال: گورنر ہاؤس میں فیسٹول کی اجازت کیسے ملی؟ کیا سندھ حکومت یا گورنر صاحب بھی تعاون کررہے ہیں؟
ڈاکٹر آصف فرخی: نہ تو سندھ حکومت سے تعاون کے لیے کہا گیا ہے، نہ گورنر صاحب سے رابطہ کیا گیا ہے۔ دراصل حکومت نے کہا تھا کہ پورے ملک میں گورنر ہاؤسز کو عوامی استعمال کے لیے کھولا جارہا ہے۔ اتفاق سے ہمیں ضرورت تھی اور ایک اچھی جگہ مل گئی۔
سوال: کیا آپ اسلام آباد یا کسی اور شہر میں بھی یہ فیسٹول کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
ڈاکٹر آصف فرخی: کراچی لٹریچر فیسٹول دس سال پہلے شروع ہوا تو اس وقت یہ نئی چیز تھی۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ بہت اچھا خیال ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ کیا بکواس ہے۔ یہ تو محض ایک تماشا ہے۔ کچھ نے دکانداری قرار دیا۔ لیکن پھر یہ ایک تحریک سی بن گئی۔ پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں اسی نہج پر ادبی میلے منعقد ہونے لگے۔ لاہور لٹریچر فیسٹول، اسلام آباد، حیدرآباد، جہلم، فیصل آباد، گوادر، بہت سے شہروں میں ان کا اہتمام ہونے لگا۔ ایک چراغ سے کئی چراغ جل جاتے ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ اس کی وجہ سے ادب کے معاملات پر زیادہ گفتگو ہونے لگی اور ہم یہی چاہتے تھے۔
سوال: پاکستان میں لٹریچر فیسٹولز کامیاب ہورہے ہیں اور ان کا مستقبل روشن دکھائی دیتا ہے۔ کیا اردو کتابوں اور اردو کے ادیبوں کا مستقبل بھی بہتر ہورہا ہے؟
ڈاکٹر آصف فرخی: یہ معاملہ ایک فیسٹول سے بہتر نہیں ہوسکتا۔ اردو کتابوں کی خریداری اور پڑھنے والوں تک رسائی کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگوں میں خرید کر کتاب پڑھنے کا رجحان ہونا چاہیے۔ فیسٹول اس کا ایک ذریعہ ہے، واحد ذریعہ نہیں ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے، ثقافتی ادارے، سب اس تحریک میں شامل ہوں گے تبھی اس میں کامیابی ہوسکے گی۔
سوال: آپ کا پرچہ دنیازاد باقاعدگی سے نہیں آرہا۔ کیا اس جانب توجہ کم ہوگئی ہے؟
ڈاکٹر آصف فرخی: توجہ کم نہیں ہوئی لیکن اس پابندی کے ساتھ نہیں آرہا جیسے آنا چاہیے۔ اس میں میری ذاتی مصروفیات بڑھ جانے کو بھی دخل ہے۔ لیکن میں اس کی اشاعت برقرار رکھنا چاہتا ہوں۔ اس پرچے کی ناکامی یہ ہے کہ اسے ایک ٹیم کی ضرورت تھی۔ صرف ایک شخص کام کرتا ہے تو چیزیں مشکل ہوجاتی ہیں۔ ہر دوسرے مہینے پرچا آسکتا ہے، جیسے اور بہت سے پرچے آتے ہیں لیکن پھر معیار پر سمجھوتا کرنا پڑے گا۔ جس طرح اختصاص کے ساتھ مضامین لکھوائے جاتے تھے، چیزیں تلاش کی جاتی تھیں، ترجمہ کروائی جاتی تھیں، جو معیار تھا، میں اس معیار کو باقاعدگی کی خاطر نہیں چھوڑنا چاہتا۔
سوال: کیا آج کل آپ کسی نئی کتاب پر کام کر رہے ہیں؟
ڈاکٹر آصف فرخی: میں ایک وقت میں صرف ایک کتاب پر کام نہیں کرتا۔ کئی سال پہلے اپنے ادبی انٹرویوز کا مجموعہ ’حرف من و تو‘ کے عنوان سے مرتب کیا تھا۔ اب دوسرا مجموعہ ترتیب دے رہا ہوں۔ تقریباً تیار کرلیا ہے اور پریس میں بھیجنے والا ہوں۔ اس میں کئی ایسے لوگوں کے انٹرویوز شامل ہیں جو دنیا میں نہیں رہے۔ مثلاً انتظار حسین، اوپندر ناتھ اشک، اخترالایمان اور عرفان صدیقی۔ میں اپنے تنقیدی مضامین کا مجموعہ بھی مرتب کرنا چاہ رہا ہوں جو کافی جمع ہوگئے ہیں۔
سوال: اور آج کل آپ کون سی کتاب پڑھ رہے ہیں؟
ڈاکٹر آصف فرخی: میں نے ابھی جو ناول ختم کیا ہے، جس پر میں بہت خوش ہوں اور شاید اس کے بارے میں لکھوں بھی، وہ عراقی ادیب محسن الرملی کا ناول دا پریزیڈنٹس گارڈن ہے۔ اس کے علاوہ حال میں ایک اور اچھا ناول پڑھا ہے، دا بلائنڈ لیڈیز ڈیسینڈینٹس، جو ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ حاصل کرنے والے ادیب انیس سلیم نے لکھا ہے۔
ایک ناول میں نے بہت پہلے پڑھا تھا، آنگن، جو آپ جانتے ہیں کہ خدیجہ مستور نے لکھا تھا۔ وہ تقسیم ہند کے بارے میں لکھے گئے بہت اچھے ناولوں میں سے ایک ہے اور مجھے بہت پسند تھا۔ امریکا کی ایک اسکالر خاتون ڈیزی روک ویل نے اس کا ترجمہ دا ویمنز کورٹ یارڈ کے نام سے کیا ہے۔ میں نے وہ پڑھا اور مجھے لگا کہ اس ناول کی جو روح ہے، مترجم نے اسے بہت عمدگی سے گرفت میں لیا ہے۔