اجمل کمال اگر کوئی اور کمال نہ بھی کرتے تو آج جیسے ادبی جریدے کا اجرا اور تیس سال تک معیاری ادب کی پیشکش بہت کافی تھی۔ وہ اپنے ادارے کے تحت اس قدر سستی ادبی کتابیں چھاپتے ہیں کہ دوسرے پبلشر کبھی خسارے کے ایسے سودے نہ کریں۔ اجمل صاحب ایڈیٹر اور پبلشر ہونے کے علاوہ مترجم اور نقاد بھی ہیں لیکن وہ خود کو سنجیدہ ادب کا قاری کہلانا پسند کرتے ہیں۔ ان دنوں وہ دہلی میں ایم فل کے بعد پی ایچ ڈی مکمل کرنے میں مصروف ہیں۔
میں نے اجمل صاحب سے پوچھا کہ ضیا الحق کے مارشل لا میں پاکستان میں مزاحمتی ادب لکھا گیا اور بعد میں جمع کر کے چھاپا گیا۔ آپ تازہ ادب سے واقف رہتے ہیں۔ کیا آج کل ایسا ادب لکھا جارہا ہے؟
اجمل کمال نے کہا کہ مزاحمتی ادب کی اصطلاح میری سمجھ میں نہیں آتی۔ میرا خیال ہے کہ ادب مزاحمت نہیں کرتا بلکہ معاشرہ یا اس کے کچھ گروہ ادب کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔ میں ادب میں تمام فنون لطیفہ اور علوم کو شامل کرتا ہوں۔ یہ کسی ادیب، فنکار یا عالم کے دنیا کو دیکھنے کا طریقہ ہوتا ہے۔ وہ اس کے لیے زندگی کے تجربے، مشاہدے، تخیل اور جمالیات سے کام لیتا ہے۔ وہ یہ بتانے کی کوشش کرتا ہے کہ ادب کا بڑا موضوع نیرودا کے الفاظ میں ریزیڈنس آن ارتھ یعنی انسان کی زندگی اس سیارے پر ہے۔ اس میں وہ اپنا وژن تخلیق کرتا ہے اور اس کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ دوسرے انسانوں تک پہنچے۔ لیکن اس کی بات بعض اوقات معاشرے کو قبول نہیں ہوتی۔ جو پابندی لگائی جاتی ہے، جس کی طرف مزاحتمی ادب کی اصطلاح اشارہ کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ جو بھی شے تخلیق کی گئی ہے، وہ لوگوں تک پہنچنے نہ پائے۔ یعنی پڑھنے پر پابندی لگائی جاتی ہے، لکھنے پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔
جس چیز کے خلاف کوئی ریاست، گروہ یا میڈیا مزاحمت کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کے تخلیق کار کا مقصد کسی پر حملہ کرنا نہیں ہوتا۔ لیکن اسے دوسروں تک پہنچنے سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ادب اور آرٹ میں تخیل اور جمالیات کا زیادہ دخل ہوتا ہے۔ سائنسی اور سماجی علوم میں مشاہدے اور تجربے پر زیادہ زور ہوتا ہے۔ یہ چیزیں کسی معاشرے کے لیے برداشت سے باہر ہو جاتی ہیں تو اس کے متحرک لوگ اسے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ضیا دور کے بعد بہت تبدیلیاں آئی ہیں۔ جیسے چوبیس گھنٹے چلنے والے نیوز چینل ہیں۔ میرے خیال میں یہ خود ادب اور علم پر پابندی لگانے کا طریقہ ہے۔ کیونکہ یہ کسی شخص کو کسی بات پر غور کرنے کی مہلت نہیں دیتے۔ نیوز چینلوں کا مقصد کوئی وژن فراہم کرنا نہیں ہوتا۔ ادب اور علم کا مقصد وژن فراہم کرنا ہوتا ہے۔ ٹی وی چینلوں کا مقصد اشتہارات دکھانا ہوتا ہے۔
ن م راشد نے کہا تھا کہ پہلے آدمی کتابوں کی کمی کی وجہ سے جاہل رہ جاتا تھا۔ اب کتابوں کی زیادتی کی وجہ سے جاہل رہ جاتا ہے۔ لوگ شام کے چھ سات گھنٹے ٹی وی چینلوں کے سامنے بیٹھ کر گزارتے ہیں اور یہی ان چینلوں کا مقصد ہوتا ہے۔ ہر اینکر آپ کو یہ کہتا سنائی دے گا کہ ہمارے ساتھ رہیے۔ اس لیے کہ وہ اشتہار دکھاتے ہیں۔ کیا اس پورے سلسلے سے عوام کی اطلاعات تک رسائی بہتر ہوئی یا ان کے وژن میں کوئی بہتری ہوئی؟ پرائیویٹ چینلوں میں موسیقی کا کوئی سنجیدہ پروگرام آپ کو نظر نہیں آئے گا۔ ادب کی سنجیدہ اڈاپٹیشن نہیں ہوں گی۔ کسی علم کی کوئی بات نہیں ہو گی۔
حکومت، مختلف گروہ، عوام اور میڈیا مل کر معاشرہ بناتے ہیں۔ ان سب کا اس بات پر زور ہے کہ ادیب، فنکار اور عالم جو وژن بناتے ہیں، اسے پھیلنے سے کسی طریقے سے روک دیا جائے۔ ادیب اپنی کسی داخلی ضرورت کے تحت اپنا وژن پیش کرتا ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے آس پاس کے لوگ اسے پڑھیں بلکہ ساری دنیا کے لوگ پڑھیں اور اس سے کچھ راہنمائی حاصل کریں۔ لیکن یہ اس کی دسترس میں نہیں ہے۔ اس کے پاس جو صلاحیت ہے، اس سے وہ صرف اپنے وژن کو خوبصورت شکل دے سکتا ہے اور اسے لوگوں کے لیے چھوڑ جاتا ہے۔ بلھے شاہ اور ٹالسٹائی اپنی زندگی گزار کے رخصت ہو گئے لیکن ان کا کام موجود ہے۔ اس میں ان کا ذاتی مفاد نہیں تھا کہ ان کی باتیں سب لوگوں تک پہنچیں۔ اس میں معاشرے کا مفاد ہے۔ اگر معاشرہ اس کی مزاحمت کرتا ہے تو نقصان بھی اس کا ہے۔
میں نے کہا کہ اجمل صاحب، میں آپ کی بات سے یہ سمجھا ہوں کہ ہمارا معاشرہ یا ریاست اگر ہماری نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم فراہم نہیں کر رہی یا اعلیٰ تعلیم کے حصول سے روک رہی ہے تو یہ بھی ایک طرح کی سنسرشپ ہے؟
اجمل کمال نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں، ہمارا آج کل کا میڈیا خود سنسرشپ کا ہتھیار ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم حاصل کرنے کی کوششوں کی حوصلہ شکنی بھی سنسرشپ ہے۔ دنیا کے بہترین لوگوں نے ادب، آرٹ اور علم میں جو وژن پیدا کیا، جس سے دنیا بہتر ہو سکتی ہے، جس سے انسان کی زندگی بہتر ہو سکتی ہے، اس کا عوام تک پہنچنا کچھ لوگوں کے مفادات کے خلاف ہے۔ اور اس میں میڈیا بہت بڑا عنصر ہے۔ میڈیا بڑی طاقت رکھتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ادیب کی کوئی طاقت نہیں ہوتی۔
میں نے کہا کہ آپ پچیس تیس سال سے ایک اعلیٰ ادبی جریدہ شائع کر رہے ہیں۔ یعنی لوگوں تک ادب پہنچا رہے ہیں۔ یہ بات کہ اپنے ادب کو لوگوں تک پہنچانا ادیب کا مسئلہ نہیں ہے اور وہ اس سے لاتعلق رہ سکتا ہے، میں سمجھا نہیں۔ اس میں نہ پڑھنے والے کی غلطی تو صاف ظاہر ہے لیکن پہنچانے والے کی سستی بھی سامنے آتی ہے۔
اجمل کمال نے کہا کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ ادیب یا عالم کا مسئلہ نہیں ہے۔ دراصل ان کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔ اس کا حل معاشرے کے پاس ہے کیونکہ بڑے فیصلے عوام کی اکثریت کرتی ہے یا وہ لوگ جو فیصلہ ساز قوت رکھتے ہیں۔ ادیب کو اگر ادب کی تشہیر کا کام کرنا پڑے گا تو اس پر زیادہ بوجھ پڑ جائے گا۔ وہ لکھے بھی اور اسے عوام تک پہنچائے بھی۔ لوگوں کو خود ادب کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔ اس کی بجائے وہ ادب کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میں نے سوال کیا کہ پاکستان میں مزاحمتی ادب کے مجلے تو شائع ہوئے لیکن ادب کا معیار عالمی درجے کا نہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
اجمل کمال نے کہا کہ جب آپ مزاحمتی ادب کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اچھے معیار کا نہیں تو یہ آپ بلاوجہ ادب کو مختلف خانوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ گویا آپ توقع کرتے ہیں کہ کسی ایک خانے کا ادب عالمی معیار کا مواد فراہم کرے گا۔ منٹو نے فسادات کی کہانیاں لکھیں جنھیں مزاحمتی ادب کی محدود تعریف میں شامل کیا جا سکتا ہے لیکن اسی موضوع پر اسی وژن کے ساتھ راجندر سنگھ بیدی نے بھی لکھا۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ کسی ایک کا معیار دوسرے سے کم ہے۔ اگر آپ فوری اثر پیدا کرنے والی تحریروں کو مزاحمتی ادب کہیں گے تو آپ اس قسم کو آپ نافذ کریں گے جو ادیبوں کی بنائی ہوئی نہیں ہے۔ یہ لٹریری اسٹیبلشمنٹ کی وضع کی ہوئی تعریف ہوتی ہے اور اس کے اپنے مفادات ہوتے ہیں جو ادبی نہیں ہوتے۔
آپ کچھ مثالیں چن لیتے ہیں۔ بہت سی مثالیں ایسی ہوں گی جو آپ کی تعریف پر پوری نہیں اتریں گی۔ مثلا مارکیز ہے تو اطالو کلوینو بھی ہیں جن کے بارے میں آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اسے کسی جبر کا سامنا رہا۔ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اس نے بڑے ناول نہیں لکھے یا اس کا کسی بھی طریقے سے معیار کم ہے۔ یعنی آپ کلاسیفکیشن کر دیتے ہیں کہ جو فوری نوعیت کی چیزیں ہیں، انھیں اعلیٰ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں اور باقی چیزوں کو کہتے ہیں کہ یہ اعلیٰ ادب نہیں ہے۔ یہ تعریف میرا خیال ہے کہ درست نہیں ہے۔
دونوں طرح کے ماحول میں دونوں طرح کی مثالیں ملیں گی۔ یعنی جبر کے ماحول میں بہت سی ایسی چیزیں لکھی گئی ہیں جن کی جمالیاتی یا تخیل کے اعتبار سے کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جو ماحول ہے، وہی اعلیٰ ادب تخلیق کروائے گا۔ تخلیقی ادیب کے پاس بہت بڑا اوزار اس کا تخیل ہے۔ جب تک وہ اس کے پاس ہے، آپ اسے کسی قسم کی پابندی میں نہیں رکھ سکتے۔ وہ دنیا کو جس طرح دیکھتا ہے، اسے بیان کرنے کے ایک ہزار ایک طریقے وہ خود تلاش کرلیتا ہے۔
مزاحمتی ادب کے مجلے کی کوشش نہایت نیک نیتی سے کی گئی تھی لیکن میرے خیال میں وہ ادب کو دو حصوں میں بانٹ دیتی ہے۔ اور میرے خیال میں جس وجہ سے بانٹتی ہے، وہ بالکل غلط ہے اور اس سے جو ادب باہر رہ جاتا ہے، اس کے ساتھ ناانصافی ہو جاتی ہے۔ جب آپ ایک حصے کو مزاحمتی ادب کہتے ہیں تو دوسرے حصے کو کچھ نہ کہیں لیکن وہ غیر ضروری محسوس ہوتا ہے۔ یہ میرے خیال میں درست نہیں ہے کیونکہ دونوں میں اچھی اور بری چیزیں موجود ہیں۔ ادب کو دیکھنے کے طریقے اور ہوتے ہیں۔