رسائی کے لنکس

انسانی ٹریفکنگ: ' دبئی کا بول کر پاکستان لائے اور کہا یہاں بہت پیسہ ملے گا'


 ولی اللہ ہیومن ٹریفکنگ کا شکار ہونے والی خواتین کو اپنوں سے ملانے کے لیے کوشاں ہیں۔
ولی اللہ ہیومن ٹریفکنگ کا شکار ہونے والی خواتین کو اپنوں سے ملانے کے لیے کوشاں ہیں۔

"میری بس اتنی سی خواہش ہے کہ ایک بار میں اپنے بچوں کو سینے سے لگالوں پھر چاہے اس کے بعد مجھے موت آجائے۔" یہ کہنا ہے65 سالہ حمیدہ بانو کا جو بھارتی شہری ہیں لیکن گزشتہ 20 برس سے پاکستان میں مقیم ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے حمیدہ بانو نے بتایا کہ انہیں 20 برس قبل بھارت کے شہر ممبئی سے دبئی میں نوکری کا جھانسہ دے کر پاکستان لاکر بیچ دیا گیا تھا۔

دبئی میں نوکری کا سن کر اُنہیں اس لیے بھی حیرانگی نہیں ہوئی کیوں کہ اس سے قبل وہ قطر، سعودی عرب اور دبئی میں کام کر چکی تھیں۔

جوانی میں بیوہ ہونے کے بعد انہوں نے اپنے بچوں کی کفالت کی ذمے داری اٹھائی اور مشرقِ وسطیٰ میں گھریلو کام کاج کی غرض سے برسوں مقیم رہیں تاکہ ان کے بچوں کا مستقبل بن سکے اور وہ اپنا گھر بناسکیں جس میں وہ کامیاب ہوئیں۔

اپنے چھوٹے بیٹے کی شادی اور اس کے گھر کی تعمیر کے لیے انہوں نے ایک بار پھر سے نوکری کرنے کی ٹھانی لیکن اس بار ان کا واسطہ انسانی ٹریفکنگ میں ملوث لوگوں سے پڑا جو حمیدہ سمیت بھارت کی کئی ریاستوں سے خواتین جن میں بیشتر جوان لڑکیاں شامل تھیں انہیں پاکستان میں بیچنا چاہتے تھے۔

حمیدہ بانو کیسے بھارتی سے پاکستانی شہری بنیں؟

حمیدہ کہتی ہیں کہ "بھارت سے پاکستان لانے کے بعد مجھے اور ایک اور عورت کو تین مہینے سندھ کے شہر حیدر آباد میں ایک گھر کے کمرے میں بند رکھاگیا۔ جو جوان لڑکیاں ہمارے ساتھ لائی گئی تھیں انہیں فورا ہی کہیں اورمنتقل کر دیا گیا تھا۔ جب میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ مجھے دبئی کا بول کر پاکستان کیوں لائے ہو تو جواب ملا کہ یہاں بھی بہت پیسہ ملے گا۔"

وہ کہتی ہیں کہ "ہمیں کھانے کو نہیں دیا جاتا تھا میں تین ماہ چائے کی شکل دیکھنے کو ترس گئی۔ ایک روٹی ملتی تھی جو سوکھ جاتی تھی اسے پانی میں ڈال کر حلق سے اتارا کرتی تھی۔ پھر ایک دن موقع پا کر میں اور وہ عورت فرار ہوگئے۔ میں کراچی کے علاقہ منگھو پیر آبسی اور پھر تب سے یہی ہوں۔"

'بس ایک بار بچوں کو سینے سے لگا لوں، پھر چاہے مجھے موت آ جائے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:02 0:00

حمیدہ بانو نے اپنی داستان سناتے ہوئے بتایا کہ کراچی میں انہوں نے ایک ایک ایسے شخص سے شادی کی جس کی بیوی مر چکی تھی اور ان کے بچے بے سہارا تھے۔ ان بچوں کو سنبھالنے کی ذمے داری حمیدہ نے لی۔

ولی اللہ، اسمگل ہونے والی خواتین کا سہارا کیسے بنے؟

کراچی کے علاقے منگھو پیر کے رہائشی 28 سالہ ولی اللہ معروف پیشے کے اعتبار سے خطیب ہیں وہ بچوں کو آن لائن قرآن بھی پڑھاتے ہیں۔

ایک دین دار گھرانے سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان کو ان کی والدہ نے سوشل میڈیا کے استعمال پر یہ نصیحت کی کہ اس کا مثبت استعمال کرتے ہوئے وہ بے بس بے سہارا لوگوں کی مدد کیوں نہیں کرتے۔

والدہ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے تین برس قبل ولی نے اپنی پڑوسن زاہدہ خاتون کا رابطہ ان کے پیاروں سے کروانے کی کوشش شروع کی۔ زاہدہ خاتون کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے جنہیں 35 برس قبل وہاں سے مبینہ طور پر اغوا کر کے پاکستان میں فروخت کیا گیا تھا اغوا کے وقت زاہدہ خاتون دو بچوں کی ماں تھیں جس میں ایک بچی شیر خوار تھی۔

یہاں آنے کے بعد انہیں خریدنے والے شخص نے ان کی حالت دیکھ کر ان کی شادی اپنے ایک عزیز سے کروانے کا فیصلہ کیا۔ شادی کے بعد بھی اپنوں سے ملنے کا غم زاہدہ خاتون کو ستاتا رہا۔ولی اللہ نے زاہدہ خاتون سے حاصل کردہ تفصیلات اور تصاویر اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس پر شئیر کیں۔

ولی اللہ کے مطابق ہمارے ایک دوست حسیب اللہ جو چین میں زیرِ تعلیم تھے اور مدرسے کے معلم ہیں انہوں نے وہ پوسٹ دیکھی اور اپنے ساتھ پڑھنے والے بنگالی طلبہ کو دکھائی جس کے بعد بنگلہ دیش میں منظور نامی ایک طالب علم سے رابطہ کیاگیا جنہوں نے زاہدہ خاتون کے اہلِ خانہ اور علاقہ ڈھونڈ نکالا۔

یوں پہلی بار 35 برس بعد زاہدہ خاتون کا ان کے اہلِ خانہ سے ویڈیو کال پر رابطہ کروایا گیا۔ اس کے بعد انہیں بنگلہ دیش بھجوانے کا مرحلہ آیا جس میں خاصی دشواریاں بھی آئیں لیکن کچھ دوستوں کے مالی تعاون سے یہ بھی ممکن ہو گیا اور وہ اپنے خاندان سے ملنے پہنچ گئیں۔

زاہدہ خاتون سے حمیدہ بانو تک کا سفر

حمیدہ بانو کو اپنوں سے ملانے کی کوشش کیسے شروع ہوئی اس کا قصہ ولی اللہ کچھ یوں سناتے ہیں "حمیدہ بانو ہماری پڑوسن ہیں ہم بچپن سے انہیں دیکھ رہے ہیں جب ہم پڑھنے جاتے تھے تو انہوں نے ایک عارضی طور پر چھوٹی سی دکان کھولی تھی جہاں سے ہم ان سے کھانے پینے کی چیزیں خریدتے تھے۔ـ "

اُن کے بقول "ہمیں یہ معلوم تھا کہ یہ بھارتی شہری ہیں۔ زاہدہ خاتون کے اپنے بچھڑے خاندان سے ملاقات کے بعد حمیدہ بانو میری والدہ کے پاس آئیں اور درخواست کی کہ میں بھی اپنے بچوں سے ملنا چاہتی ہوں ولی سے کہیں کہ میری مدد کرے۔ ہم نے حمیدہ بانو سے مطلوبہ معلومات اکھٹی کیں اور سوشل میڈیا پر شئیر کیں جس کے کچھ ہی گھنٹوں بعد ان کی بیٹیوں اور داماد نے دیکھ لیا اور ہم سے رابطہ کیا۔"

یوں20 برس بعد ان کا اپنے بچوں سے ایسے موقع پر رابطہ ہوا جب ان کی نواسی کا رشتہ طے ہورہا تھا۔ اس ملاقات کے بعد بھارتی سفارت خانہ بھی حرکت میں آگیا ان کے بیٹیوں کے مطابق وہ کئی بار ان خاتون کے پاس گئیں جنہوں نے کہا تھا کہ حمیدہ بانو دبئی پہنچ چکی ہیں۔ لیکن انہوں نے "ہمیں ٹالا اور کہا کہ تم لوگوں کی ماں وہاں جا کر تم سب کو بھول چکی ہے اور اپنا پتا بھی تبدیل کرچکی ہے۔

ـ بیس برس بعد والدہ سے بات ہونے کے بعد ممبئی میں مقیم ان کے بچوں نے والدہ کے دستاویزات حکومت کو فراہم کیے اور ا ب ان کے واپسی کے امکانات خاصے روشن ہیں۔

چمن آرا بچھڑی بیٹیوں سے پچاس برس بعد کیسے ملیں؟

کراچی کے علاقہ شاہ فیصل کالونی کی رہائشی چمن آرا ء کی شادی بنگلہ دیش کے رہائشی سے اس وقت ہوئی جب بنگلہ دیش مشرقی پاکستان کہلا تاتھا۔

سن1971 کے بعد چمن آراء اپنے شوہر اور تین بیٹیوں جن میں ایک شیر خوار بچی بھی شامل تھی کے ہمراہ کراچی میں مقیم تھی کہ انہیں بنگلہ دیش سے ان کے دیور کا ایک خط موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ ایک حادثے کے سبب ان کے دیور کو دیکھ بھال کے لیے اپنے بھائی اور بھابی کی اشد ضرورت ہے۔

اس خط کو پڑھنے کے بعد چمن آراء اپنے شوہر اور بیٹیوں کے ہمراہ بنگلہ دیش پہنچ گئیں۔ اس وقت چمن آراء حاملہ تھیں۔ وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ان کے دیور نے ان سے جھوٹ بول کر وہاں بلوایا تھا۔ ان کے شوہر نے وہاں پہنچتے ہی خاندان کے دباؤ میں آ کر اپنی دونوں بڑی بیٹیاں ان سے چھین لیں جب کہ سسرال نے چمن کو تشدد کا نشانہ بنایا۔

چمن بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر نے بہانے سے انہیں بھارت لاکر چھوڑ دیا اور واپس پلٹ کر نہ آئے۔ نیا دیس اور گود میں شیر خوار بچی لیے حاملہ چمن آراء در در کی ٹھوکریں کھانے لگیں یہاں تک کہ بھوک کے سبب ان کی بچی مر گئی۔ بھارت میں ہی کسی دائی کی مدد کے بغیر ان کا بیٹا پیدا ہوا جو نہ بچ سکا۔

75 سالہ چمن آراء کے مطابق، "آٹھ سال میں نے بھارت میں بد ترین جنسی اور ذہنی تشدد کے ساتھ گزارے یہاں تک کہ مجھے جسم فروشی تک پر مجبور کیا گیا۔ اپنی بیٹیوں کے بچھڑنے کا ستم اور دو بچوں کے مرنے کا غم مجھے اندر سے کھا چکا تھا کہ ایک سکھ نے مجھ پر ترس کھا کر اپنی بیٹی بنالیا اور گھر میں پناہ دی۔لیکن تکلیف اتنی تھی کہ روز لگتا تھا کہ زندگی مجھ پر تنگ ہے۔"

چمن آراء کے بھانجے سعید عرفان کے مطابق چمن کے شوہر نے بھارت میں اپنی بیوی کو بے یارو مددگار چھوڑنے کے بعد کراچی ایک خط لکھ کر یہ اطلاع دی کہ چمن بچے کی پیدائش پر فوت ہوگئی ہیں جس پر ان کے گھرانے کو شدید صدمہ پہنچا یہاں تک کہ ان کے ایصال ثواب کے لیے دعا بھی کردی گئی۔

لیکن آٹھ برسوں کے دوران چمن کسی بھی طرح پاکستان اپنی موجودگی کی اطلاع بھجوانے میں کامیاب ہوگئیں۔ جس کے بعد ان کی والدہ نے اپنی بیٹی کے لیے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کر کے اپنی بیٹی کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ بھٹو کی حکومت تو نہ رہی لیکن دونوں ممالک کے درمیان باہمی معاہدے کے نتیجے میں چمن آراء کی پاکستان واپسی ہو گئی۔

ولی اللہ کی ایسی بہت سی خواتین کو اپنوں سے ملانے کی کوششوں کی بازگشت اب بنگلہ دیش اور بھارت میں بھی جا پہنچی تھی۔

ولی کے مطابق ـ "ایک دن مجھ سے بنگلہ دیش سے نیت القاضی نامی ایک شخص نے رابط کیا جو چمن آراء کی بیٹی کے داماد ہیں۔ انہوں نے تفصیلات بھیجیں کہ ہم ایک ایسی خاتون کی تلاش میں ہیں جو کراچی میں ہیں۔ جب ہم نے وہ تصویر اور تفصیلات اپنے فیس بک پیج پر ڈالی تو وہ وائرل ہوئی جس کے بعد کچھ واٹس ایپ گروپس میں شئیر ہوگئیں۔

اُن کے بقول کسی گروپ میں اتفاقی طور پر چمن آراء کے بھانجے موجود تھے جنہوں نے فوراً پہچان لیا اور بتایا کہ یہ خاتون ہماری خالہ ہیں اور یوں ایک ماں کا اپنی بیٹیوں سے 50 برسوں بعد رابطہ ہوا۔"

'ایک لاکھ ٹکہ بھی بیٹی سے ملاقات نہ کرواسکا'

ہیومن ٹریفکنگ کا شکار ہونے والی خواتین کو کئی کئی برسوں بعداپنوں سے ملانے کی داستان نے لاڑکانہ کے ایک نوجوان کو مجبور کیا کہ وہ بھی ولی اللہ سے رابطہ کرے۔ لاڑکانہ کی رہائشی 55 سالہ روبینہ جن کا اصل نام الومتی تھا، بنگلہ دیش کی یہ رہائشی خاتون 30 برس قبل اغواء ہوئیں۔

انہیں ایک خاتون درگاہ کی زیارت کے لیے لی گئیں جہاں انہیں کوئی نشہ آور چیز کھلائی گئی اور بنگلہ دیش سے انڈیا پھر میں پاکستان میں فروخت کردیا گیا۔

پاکستان میں انھیں ایک شخص نے خریدا اور شادی کرلی۔ الومتی کو پاکستانی شہریت بھی مل گئی اور وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ زندگی گزارنے لگیں لیکن وہ اپنے اہل خانہ اور وطن کو یاد کر کے روتی رہتی تھی۔

ان کے بیٹے ارشدکا کہنا ہے کہ اس نے جب زاہدہ خاتون کو اپنے پیاروں سے کئی برسو ں بعد ملتے دیکھا تو انہوں نے سوچا کہ وہ اپنی ماں کو ان کی زندگی میں ان کے والدین سے کسی طرح ملوا دیں یہی ایک بہترین تحفہ ہوسکتا ہے۔ اسی خواہش کی تکمیل کے لیے انہوں نے ولی اللہ سے رابطہ کیا۔ اس بار بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ ہونے والے کوائف اور تصاویر نے الو متی کے اہل خانہ کو ڈھونڈ نکالا۔

پاکستانی انسانی اسمگلروں کے ہاتھ کیوں لگ جاتے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:55 0:00


پاکستا ن کے علاقے لاڑکانہ میں رہنے والی خاتون کی والدہ ان کے انتظار میں برسوں سے تھیں۔ویڈیو کال پر رابطے کے بعد ان کی والدہ نے طے کیا کہ ان کی بیماری کے علاج پر رکھی رقم جو ایک لاکھ ٹکہ تھی وہ پاکستان بھیجی جائے تاکہ ان کی بیٹی بنگلہ دیش کا ٹکٹ لے کر فوراً ان سے ملنے پہنچے۔

رمضان سے قبل ویزا کے لیے کی جانے والی کوششیں اور دونوں ممالک کے درمیان دستاویزات کے پلندے پورے کرنے میں کئی ماہ گزر گئے اسی انتظار میں الومتی کی والدہ اپنی بیٹی کو گلے لگانے کی آس لے کر دنیا سے چلی گئیں۔

الومتی کو ان کے بہن بھائیوں اور عزیزوں سے ملوانے کے لیے تاحال کوششیں جاری ہیں لیکن وہ اپنے اہلِ خانہ سے اب بھی رابطے میں ہیں اور قدرے مطمئن بھی کہ ان کی زندگی میں اپنوں سے ملنے کی خواہش ان کے بیٹے اور ولی اللہ کی کوششوں سے ممکن ہوگئی۔

ولی اللہ کا کہنا ہے کہ ان کی ایک کوشش نے ان کو کئی عورتوں کی امید بنا ڈالا۔

وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو کو دیکھنے کے بعد و لی سے پاکستان بھر سے ایسے بہت سے لوگوں نے رابطہ کیا جن کے اپنے گھر کی خواتین اپنے پیاروں سے ملنے کی منتظر ہیں۔ حمیدہ بانو کی کہانی دیکھ کر اب خانیوال سے ایک خاندان نے رابطہ کیا ہے جن کا تعلق بھارت سے بنتا ہے۔ اس وقت تک ولی اللہ 46 خواتین کو ان کے پیاروں سے ملوا چکے ہیں۔

ولی کے مطابق، انہیں ملنے والے بیشتر کیسز میں خواتین کو یا تو ان کے اپنوں نے دھوکے سے بیچا تھا یا کسی نے ورغلا کر، بازار لے جانے، مزار لیے جانے کا کہہ کر آگے زبردستی اسمگل کردیا تھا۔

ان تمام خواتین کے پاس واپسی کے راستے تھے نہ ہی وسائل، بیشتر خواتین 30 سے40 برس اپنوں سے دور رہیں لیکن جب رابط کا وقت آیا تو کسی کا چند گھنٹوں یا دنوں میں رابطہ ہوگیا۔

ولی کہتے ہیں کہ "میں بہت عام سا انسان ہوں نہ میں کسی تاجر کا بیٹا ہوں نہ ہی کسی بہت بڑے ادارے کا مالک ہوں۔ ایک محدود سے حلقہ احباب میں رہتے ہوئے میں یہ کام کر رہا ہوں جس کے سبب مجھے دعائیں مل رہی ہیں۔ جب بھی میں کسی ما ں کو اسکے پیاروں سے ملتے دیکھتا ہوں تو مجھے دلی سکون ملتا ہے اور میں سوچتا ہوں کہ خدا نے مجھے اس کام کے لئے چنا ہے جس کا میں جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے۔"

XS
SM
MD
LG