بھارتی خاتون عظمیٰ احمد جنھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ایک پاکستانی شخص طاہر علی نے بندوق کی نوک پر ان سے شادی کی تھی، جمعرات کے روز بھارت لوٹ آئیں۔ ایک روز قبل اسلام آباد ہائی کورٹ نے انھیں بھارت آنے کی اجازت دی تھی۔ انھوں نے اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن میں پناہ لے رکھی تھی۔
پاکستانی سیکورٹی اہل کار واگہہ سرحد تک ان کے ہمراہ آئے، جب کہ بھارتی ہائی کمیشن کے اہلکار بھی ان کے ہمراہ تھے۔ وہاں سے وہ نئی دہلی آئیں اور وزیر خارجہ سشما سوراج سے ملاقات کی۔
اس موقع پر ایک نیوز کانفرنس میں عظمیٰ نے اپنی آپ بیتی سنائی۔ سشما سوراج نے ان کی رہائی کے لیے بھارتی ہائی کمیشن کی کوششوں کی تفصیلات بتائیں۔
انھوں نے عظمیٰ کی واپسی کے لیے جہاں بھارتی ہائی کمیشن کے اہلکاروں کا شکریہ ادا کیا وہیں پاکستان کی وزارت خارجہ، وزارت داخلہ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی اور عظمیٰ کے وکیل بیرسٹر شاہ نواز نون کا بھی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ انھوں نے ہمارا بہت ساتھ دیا۔ انھوں نے کہا کہ جسٹس کیانی نے انسانی بنیادوں پر فیصلہ سنایا۔
خیال رہے کہ 20 سالہ عظمیٰ کی ملاقات ملیشیا میں ایک پاکستانی طاہر علی سے ہوئی تھی۔ دونوں نے شادی کا فیصلہ کیا۔ عظمیٰ یکم مئی کو پاکستان گئیں اور تین مئی کو ان کی شادی ہوئی۔ لیکن، چند روز کے بعد وہ بھارتی ہائی کمیشن اسلام آباد گئیں اور الزام عائد کیا کہ بندوق کی نوک پر ان سے شادی کی گئی ہے۔
انھوں نے اور طاہر علی نے عدالت میں پٹیشن داخل کی اور جسٹس کیانی نے عظمیٰ کو بھارت آنے کی اجازت دے دی۔
طاہر علی نے عظمیٰ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اب بھی ان کی بیوی ہیں۔ ان کے مطابق ”نہ تو عظمیٰ نے طلاق مانگی ہے اور نہ ہی میں نے دی ہے“۔