یمنی حکومت کے ایک اعلان کے مطابق صدر علی عبدالله صالح کی حالت اب بہتر ہو رہی ہے۔ وہ گذشتہ جمعے دارالحکومت صنعاء میں ایک راکٹ حملے میں زخمی ہونے کے بعد علاج کی غرض سے سعودی عرب چلے گئے تھے۔دوسری جانب یمن کے مختلف علاقوں میں ان کے 33 سالہ اقتدار کے خاتمے کے لیے مظاہروں کا سلسلہ بدستور جاری ہے ۔ حکومت کی کمزور ہوتی گرفت سے یمن میں القاعدہ اور انتہاپسند دہشت گردوں کے مضبوط ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے جس سے نمٹنے کے لیے امریکہ نے ان کے ٹھکانوں پر ایک مرتبہ پھر فضائی حملے شروع کردیے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق امریکی حملوں میں ڈرون اور لڑاکا طیارے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ یمن میں القائدہ کے ٹھکانوں پر امریکی حملوں کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں امریکہ کی اتحادی صالح حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے جاری ہیں اور وہ فوجیں جو پہلے دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہی تھیں اب دارلحکومت کی حفاطت پر مامور ہیں۔
سابق صدر بش کے نائب نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جے ڈی کروچ۔ وہ کہتے ہیں کہ عرب خطے میں آنے والی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے امریکہ مثبت اقدامات کر رہا ہے۔
ان کا کہناتھاکہ ایک بات جس پر تمام فریق متفق ہیں کہ اس خطے میں القاعدہ کی جڑین مضبوط ہو رہی ہیں۔ امریکہ کو یقیناً افغانستان اور پاکستان کے مسائل پر توجہ برقرار رکھنی چاہیے۔ مگر یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ القاعدہ نے خود کو نہ صرف عرب خطے بلکہ شمالی افریقہ اور دیگر علاقوں میں بھی خود کو مضبوط بنالیا ہے۔
یمن میں امریکی فضائی حملوں کے نتیجے میں اسی ہفتے ایک اہم القاعدہ راہنما ہلاک ہوا جبکہ اوباما انتظامیہ وہاں امریکہ میں پیدا ہونے والے ایک اہم القاعدہ راہنما انور العولقی کے خلاف ایک سال سے بھی زیادہ عرصے سے کوششیں کر رہی ہے۔ یمن کی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ القاعدہ سے منسلک دہشت گرد کہیں عام لوگوں میں نہ مل جائیں اور ان میں شامل ہو کر اپنی کاروائیاں کریں۔ صدر اوباما کے سابق نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جنرل جیمز جانز کہتے ہیں کہ یمن صرف امریکہ کا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک ایسا وقت ہے جب سعودی عرب اور خطے کے دوسرے ملکوں کو آگے آنا ہو گا۔ اور وہ کرنا ہو گا جو روایتی طور پر ہم نے کیا ہے۔ وہ امیر ملک ہیں اور یہ ان کی سرحدوں کے قریب ہو رہا ہے۔ہم بہت طرح سے مدد فراہم کر سکتے ہیں اور ہمیں کرنی چاہیے۔ لیکن یہ ایک مشترکہ کوشش ہو گی ایسا نہیں ہو سکتا کہ مستقبل میں امریکہ اکیلا ہی لڑتا رہے۔
یمنی حکومت کا کہنا ہے کہ صدر علی عبدالله صالح کی حالت اب خطرے سے باہر ہے مگر یمن میں حکومت اور باغیوں کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے۔
واشنگٹن میں اوباما انتظامیہ کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ صدر علی عبدلالله صالح کی غیر موجودگی میں سعودی عرب، امریکہ اور خطے کے دوسرے ملکوں کو فوری طور پر کوئی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اقتدار کے خلا کے باعث القائدہ جیسے عناصر یمن کی صورتِ حال سے فائدہ نہ اٹھا سکیں۔