رسائی کے لنکس

سی پیک سے پاکستان کی معیشت کو نقصان ہو گا: امریکہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

امریکہ نے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے سے چین کو تو فائدہ پہنچے گا لیکن اس سے پاکستان کو طویل المدتی معاشی نقصان ہو سکتا ہے۔

امریکہ کی نمائندہ خصوصی برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز نے جمعرات کو امریکہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک کو چین اور پاکستان 'گیم چینجر' قرار دے رہے ہیں۔ لیکن اس سے صرف چینی مفادات کا تحفظ ہو گا، امریکہ کے پاس اس سے بہتر اقتصادی ماڈل موجود ہے۔

ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ یہ واضح ہے کہ سی پیک پاکستان کے لیے امدادی منصوبہ نہیں ہے۔ پاکستان کو ان منصوبوں سے متعلق چین سے سخت سوالات پوچھنے چاہئیں۔ اُن کے بقول، "سی پیک کے اثرات پاکستان کی معیشت پر اس وقت پڑیں گے جب چار یا چھ سال بعد پاکستان کو قرضوں کی مد میں ادائیگیاں کرنا ہوں گی۔"

امریکی نمائندہ خصوصی کے مطابق سی پیک کے تحت ملنے والے قرضوں کی شرائط بھی نرم نہیں ہیں جب کہ چینی کمپنیاں اپنے مزدور اور خام مال پاکستان بھجوا رہے ہیں۔ ان کے بقول "سی پیک کے تحت چینی کمپنیاں اور مزدور پاکستان آ رہے ہیں، حالانکہ پاکستان میں بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔"

ایلس ویلز نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ بظاہر یہ قرضے طویل المدتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ پاکستان کے موجودہ وزیرِ اعظم عمران خان کے اصلاحاتی ایجنڈے پر تلوار کی طرح لٹکتے رہیں گے۔

امریکہ کی نمائندہ خصوصی برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز
امریکہ کی نمائندہ خصوصی برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے امریکہ کے پاس بہتر ماڈل موجود ہے۔ اُن کے بقول "امریکہ کی نجی کمپنیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری اور حکومتی امداد سے پاکستان کو معاشی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔"

یاد رہے کہ پاکستان امریکہ کا روایتی حلیف رہا ہے لیکن گزشتہ چند برسوں سے دونوں ممالک کے تعلقات سرد مہری کا شکار تھے۔ البتہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر زور دیتے رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کو بھی اپنا دوست قرار دیتے رہے ہیں۔

لیکن امریکہ چین کے 'بیلٹ اینڈ روڈ' منصوبے کا بڑا مخالف رہا ہے۔ اس سے قبل بھی امریکی حکام سی پیک کے حوالے سے پاکستان کو تنبیہ کرتے رہے ہیں۔

چین 'بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو' جسے 'ون بیلٹ ون روڈ' منصوبہ بھی کہا جاتا ہے، کے تحت وسطی ایشیا سمیت دنیا کے لگ بھگ 66 ممالک کو تجارتی سطح پر جوڑنا چاہتا ہے۔

اس منصوبے کے ایک حصے جسے 'سی پیک' کہا جاتا ہے، کہ تحت چین نے پاکستان میں 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کر رکھے ہیں۔

چین پاکستان کی گوادر بندرگاہ تک موٹرویز اور ریلوے لنک کا جال بچھانے کے علاوہ پاکستان میں توانائی کے شعبوں میں بھی سرمایہ کاری کرے گا۔

چین نے پاکستان میں 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کر رکھے ہیں۔ (فائل فوٹو)
چین نے پاکستان میں 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کر رکھے ہیں۔ (فائل فوٹو)

عالمی بینک اور آئی ایم ایف بھی وقتاً فوقتاً چین، پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں کے پاکستانی معیشت پر ممکنہ اثرات کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

اس سے قبل بھارت بھی سی پیک کے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں جاری منصوبوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اُنہیں روکنے کا مطالبہ کر چکا ہے۔

پانچ اگست کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے اعلان کے بعد بھارت نے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں سی پیک منصوبے روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔

سی پیک کے تحت پاکستان میں لگ بھگ 46 ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کے منصوبوں کی شفافیت سے متعلق پاکستان کے اندر سے بھی آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ لیکن پاکستانی حکام ان تحفظات کو رد کرتے ہوئے ان منصوبوں کو 'گیم چینجر' قرار دیتے ہیں۔

پاکستان پر چین کا کتنا قرضہ ہے؟

’بلوم برگ‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان پر اس وقت چین سے حاصل کردہ 6.7 ارب ڈالر کے تجارتی قرضوں کا بوجھ ہے جن کی ادائیگی جون 2022 میں ہونی ہے۔

آئی ایم ایف نے پاکستان کو اپنے مالیاتی بحران سے نکلنے میں مدد کے لیے اس سال ایک بیل آؤٹ پروگرام کی منظوری دی ہے، جب کہ پاکستان کو اسی عرصے میں اسے 2.8 ارب ڈالر لوٹانے ہیں۔

پاکستان اور چین کے وزرائے اعظم (فائل فوٹو)
پاکستان اور چین کے وزرائے اعظم (فائل فوٹو)

رپورٹ کے مطابق چین کے ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ پروگرام سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا ملک پاکستان ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے مالیاتی بحران سے نجات کے لیے بیجنگ سے قرض بھی لے رہا ہے۔

پچھلے سال ’سینٹر فار گلوبل ڈویلپمنٹ‘ نے پاکستان کا شمار ان آٹھ ملکوں میں کیا تھا جنہیں چین کے بیلٹ روڈ پراجیکٹ کی وجہ سے قرضوں کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

چین کیا کہتا ہے؟

اسلام آباد میں تعینات چینی سفیر، یائو جِنگ نے کہا ہے کہ سی پیک سے متعلق ایلس ویلز کا بیان ''حقائق پر مبنی نہیں ہے''۔ 'وائس آف امریکہ' کے نمائندے ایاز گل سے بات کرتے ہوئے، انھوں نے کہا ہے کہ سی پیک کی بدولت 75000 سے زائد پاکستانی کارکنان کو روزگار کے مواقع فراہم ہوئے ہیں، جب کہ سال 2030ء تک 23 لاکھ سے زیادہ روزگار کے اضافی مواقع میسر آئیں گے۔

ساتھ ہی، چینی سفیر نے کہا کہ چینی سرمایہ کاری سے بننے والی خصوصی اقتصادی زونز کی مدد سے پاکستان کی برآمدات کی مقدار اور معیار میں خاصی بہتری آئے گی، جس کے باعث، توقع ہے کہ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر خاطر خواہ سطح تک بڑھ جائیں گے۔

پاکستانی سینیٹ کی امور خارجہ کمیٹی کے چئیرمین مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ ایلس ولس کے الزامات مایوس کن ہیں ۔انہوں نے کہا کہ سی پیک نے پاکستان کے لئے توانائی کا تحفظ یقینی بنایا ہے اور اس بڑے پراجیکٹ کا اگلا مرحلہ پاکستان میں ‘صنعتی انقلاب’کی راہ ہموار کرے گا ..

ان کا کہنا تھاسی پیک پاکستان کے مستقبل کے لئے مرکزی اہمیت رکھتا ہے اور چین سے ہمارے سٹریٹیجک تعلقات کا ستون ہے ۔ جس سے پاکستان کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ میرے خیال میں نمائندہ خصوصی نے بے بنیاد میڈیا رپورٹس کی وجہ سے حقائق کو خلط ملط کر دیا ہے ​

XS
SM
MD
LG