پاکستان کہہ چکا ہے کہ وہ اپنی حالیہ اقتصادی مشکلات سے نکلنے کے لئے چین سے طے پانے والے سی پیک قرضوں سمیت اپنے تمام بیرونی قرضوں کی تفصيل عالمی مالیاتی فنڈ کو دینے کے لئے تیار ہے۔
اگر ایسا کیا گیا تو چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر خرچ کی جانے والی رقم کی ادائیگی کی تفصیلات اور ان کی شرائط بھی عالمی مالیاتی فنڈ کو فراہم کی جائیں گی۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر زبیر اقبال کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضه حاصل کرنا ہے تو یہ تفصیلات فراہم کرنا لازم ہے۔ اس پر کسی اعتراض کی کوئی وجہ نہیں ہو نی چاہیے۔
اس سوال پر کہ پاکستان کے چین کے ساتھ معاہدوں اور قرضوں میں آئی ایم ایف کی اتنی دلچسپی کیوں ہے؟
آئی ایم ایف کے ساتھ 35 برس سے منسلک رہنے والے ڈاکٹر زبیر اقبال کہتے ہیں کہ اگر کوئی ملک آئی ایم ایف سے قرضے کے لئے رجوع کرتا ہے، تو اس ملک کو اپنی تمام مالیاتی دستاویز دکھانی ہوتی ہیں۔ اپنے تمام قرضوں کی تفصیلات بتانی ہوتی ہیں۔ یہ ایک بنیادی شرط ہے۔ یہ ایسے ہی ہے، جیسے کوئی بینک آپ کو قرض دے رہا ہے تو اسے معلومات درکار ہوں گی کہ کیا آپ کے پاس اتنے وسائل بھی ہیں کہ آپ قرض واپس کر سکیں گے؟ قرضه دینے والے بینک کو قرضے کے خواہش مند سے اس کے دیگر قرضوں کی معلومات لازمی درکار ہوتی ہیں کہ اس پر کسی دوسرے ادارے کا کتنا قرض ہے؟ وہ قرضه کن شرائط پر لیا گیا اور ادائیگی کا طریقہ کار کیا طے کیا گیا ہے؟
اس سوال پر کہ کیا یہ تفصیلات، آئی ایم ایف، امریکہ سمیت دیگر ممالک کے ساتھ شیئر کرے گا ؟
ڈاکٹر زبیر اقبال کہتے ہیں کہ یہ معلومات عالمی مالیاتی فنڈ کے ایکزیکٹو بورڈ میں موجود تمام ارکان کی دسترس میں ہوتی ہیں۔ ہر وہ ملک جس کا رکن اس ایکزیکٹو بورڈ کا حصہ ہو، ان معلومات تک رسائی رکھتا ہے۔ ایک دفعہ یہ معلومات آئی ایم ایف کے حوالے کر دی جائیں، تو خفیہ نہیں رہتیں۔ تاہم ان تک دسترس آئی ایم ایف کے ایکزیکٹو بورڈ کے ارکان تک محدود رہتی ہے۔
کیا پاکستان کے لئے آئی ایم ایف کی بجائے چین سے مزید قرضه لینا درست ہو گا؟
ڈاکٹر زبیر کہتے ہیں کہ بغیر پالیسی معاہدے کے کوئی ملک قرض نہیں لے سکتا۔ اگر قرضه دینے والا کوئی دوسرا ملک ہے تو وہ پالیسی پیکیج بنانے کے قابل نہیں ہوتا۔ یہ اہلیت صرف آئی ایم ایف کے پاس ہے کہ جب وہ قرض دے، تو قرض لینے والے ملک کو کسی پالیسی پیکیج پر عمل درآمد کا پابند بنائے۔ جو ملک آئی ایم ایف سے قرض لے رہا ہے، اسے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنی ہوتی ہیں۔ یہ مارکیٹ میں اس ملک کی ساکھ کے لئے اچھا ہوتا ہے۔ جیسے ہی ساکھ بڑھتی ہے، دیگر مالیاتی ادارے اور ملک بھی اس ملک کو قرض دینے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ لیکن کسی دوسرے ملک سے قرض لینے کی صورت میں ایسے فوائد حاصل نہیں ہوتے۔
ڈاکٹر زبیر کہتے ہیں کہ پاکستان کے معاشی مسائل کا حل سادہ ہے۔ ملک کے اندر وسائل کو منظم کیا جائے۔ ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے۔ ریوینیو بڑھایا جائے۔ ملکی اخراجات کم کئے جائیں ۔وسائل کو کفایت سے استعمال کرتے ہوئے ان کا زیاں روکا جائے۔ اگر کوئی ملک اپنے وسائل سے مسائل حل کر لے تو انویسٹ ایبل سرپلس یعنی سرمایہ کاری کے قابل اضافی آمدنی پیدا کرتا ہے۔ جس کی مدد سے کوئی ملک قرضه لیے بغیر سرمایہ کاری میں اضافہ کر سکتا ہے۔
زبیر اقبال کے بقول، صرف باتیں نہیں، عمل کی ضرورت ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ اقدامات کیا درکار ہیں۔ اگر وہ نہ کئے گئے تو قرضوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔