انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیموں نے امریکی قانون سازوں سے کہا ہے کہ ایران اور کیوبا کے ساتھ غیر معمولی سفارتی پیش رفت ان دونوں ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نگرانی سے رو گردانی کا باعث نہیں بننی چاہئیے۔
واشنگٹن میں قائم فریڈم ہاؤس کے صدر مارک لیگن نے سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سامنے ایک بیان میں کہا کہ ’’ایران اور کیوبا میں امریکہ کو اپنا سفارتی اثر و رسوخ صرف جوہری تصفیے یا سفارتی تعلقات کی بحالی کی بجائے انسانی حقوق کے مسائل کو دیکھنے کے لیے بھی استعمال کرنا چاہیئے‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’امریکہ کا پوری رفتار سے کیوبا کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی کا فیصلہ ایسے وقت ہونا جب وہاں 100 پرامن سرگرم کارکنوں کو حراست میں لیا جارہا تھا، پریشان کن ہے۔‘‘
کمیٹی کے چیئرمین رپبلیکن سینیٹر باب کروکر نے ایران اور کیوبا کے انسانی حقوق کے بارے میں بات نہیں کی مگر اس مسئلے کو پوری دنیا کے تناظر میں تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ’’انسانی حقوق کے معاملے میں ہمارا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ غیر ملکی حکومتوں کے ساتھ دوسرے مفادات جڑے ہونے کے باعث ہماری انسانی حقوق کے معاملات اٹھانے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔‘‘
امریکی وزارت خارجہ میں اسسٹنٹ سیکرٹری برائے جمہوریت و انسانی حقوق ٹوماز مالینوسکی نے بھی سینیٹ کمیٹی کے سامنے اپنی گواہی پیش کی۔
مالینوسکی نے کروکر کے جواب میں کہا ’’میرا خیال ہے کہ ہمیں اس معاملے پر مکمل صاف گوئی سے کام لینا پڑے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے دیگر مفادات بھی ہیں۔ مگر میں اس خیال سے اتفاق نہیں کرتا کہ انسانی حقوق کو فروغ دینے میں ہماری دلچسپی اور اپنی سلامتی اور خوشحالی کو محفوظ بنانے کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’میرا خیال ہے کہ کبھی کبھار ہمیں قلیل مدتی سودا بازی کرنا پڑتی ہے جب ہمیں کسی ایسے ملک کے ساتھ کسی ایسی چیز پر کام کرنا پڑتا ہے جو اس وقت ہماری سلامتی کے لیے ضروری ہو۔ اور ایسے اوقات میں ہمیں اپنی کوششیں دوسرے اہم معاملات کی طرف مرکوز کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔‘‘
ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے کیوبن نژاد امریکی سینیٹر رابرٹ مینڈز نے کیوبا کے معاملے پر بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے کانگریسی رفقائے کار کی کیوبا کے دوروں پر سرزنش کی۔
’’میرے لیے یہ بات بہت حیرت انگیز ہے کہ جب ہمارے سینیٹ کے ساتھی کیوبا دورے پر جاتے ہیں تو وہ انسانی حقوق کی سرگرم کارکنوں، سیاسی منحرفین، آزاد صحافیوں کو ساتھ نہیں لے کر جاتے، کیونکہ اگر وہ ایسا کریں تو ان کی سرکاری ملاقاتوں پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہمیں اس تصور کو ختم کرنا ہو گا کیونکہ اگر عالمی سطح پر ہم یہ پیغام بھیجیں گے کہ کسی ملک کے سرکاری عہدیداروں سے ملاقات کے لیے ہم چین، ملائشیا یا دنیا کے کسی بھی ملک کے انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں، سیاسی منحرفین اور آزاد صحافیوںسے نہیں مل سکتے تو یہ امریکہ کے لیے ایک بڑی افسوسناک صورتحال ہو گی۔‘‘
اوباما انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ ہوانا کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی بہتر ابلاغ اور پچاس سال سے ایک دوسرے سے ناراض ممالک کے درمیان عوام کے تبادلوں کے ذریعے شہری آزادیوں اور انسانی حقوق کے نصب العین کو آگے بڑھائے گی۔
جوہری معاملے پر صدر اوباما بارہا کہہ چکے ہیں کہ امریکہ کے ایران کے ساتھ کئی معاملات پر اختلافات باقی ہیں، مگر رواں ہفتے ویانا میں ہونے والا معاہدہ ایران کے جوہری پروگرام تک محدود تھا۔