چینی طلبہ کی قیادت میں مظاہروں کے خلاف خونریز کارروائی کی 25 ویں برسی کے موقع پر بیجنگ کے تیانانمین اسکوائر پر سخت حفاظتی اقدامات کئے گئے ہیں۔
1989ء میں ہونے والے مظاہروں کے خلاف فوج کی کارروائی سے کم از کم سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حکومت کی طرف سے ہلاکتوں کے اعداد و شمار کے بارے میں آج تک کچھ نہیں بتایا گیا۔
یونیفارم اور سادہ کپڑوں میں سیکورٹی کے اہلکار یہاں سے گزرنے والوں کی شناختی دستاویزات کی پڑتال اور صحافیوں کو یہاں رپورٹنگ کرنے سے روک رہے ہیں۔
گزشتہ سالوں کی طرح چین نے اس مرتبہ بھی برسی کے موقع پر درجنوں کارکنوں، صحافیوں اور وکلا کو حراست میں لیا یا گھروں میں نظر بند کیا۔
امریکہ نے چین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بیجنگ کے ناقدین کو رہا کرتے ہوئے تیانانمین اسکوائر کے واقعے پر عوامی سطح پر بحث کی اجازت دے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ان گرفتاریوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ صرف ’’قانون توڑنے والوں‘‘ کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے نا کہ ’’مخالف رائے رکھنے والوں‘‘ کے خلاف۔
شین ٹونگ سال سوئم کا بیجنگ یورنیورسٹی کا طالب علم تھا جب تیانانمین اسکوئر کا سانحہ پیش آیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ فوج کی طرف سے شہریوں کو ہلاک کرنے کی توقع نہیں کررہے تھے۔
’’یہ کچھ ایسی حرکت تھی کہ ایک دن پہلے آپ نے سوچا کہ نا ممکن ہے اور ایک دن بعد وہ ناگزیر ہوگئی۔ تو میں کہوں گا کہ کوئی بھی توقع نہیں کررہا تھا۔‘‘
ٹونگ کو اس کارروائی کے بعد اپنے تحفظ کے لیے چین چھوڑنا پڑا۔
1989ء کے مظاہروں میں ہر شعبہ زندگی کے شہریوں نے شرکت کی تھی جن میں کمیونسٹ پارٹی کے اراکین بھی شامل تھے۔ کئی لوگ آزادی رائے، بڑھتی ہوئے عدم مساوات اور سرکاری سطح پر بدعنوانی کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کررہے تھے۔
1989ء میں ہونے والے مظاہروں کے خلاف فوج کی کارروائی سے کم از کم سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حکومت کی طرف سے ہلاکتوں کے اعداد و شمار کے بارے میں آج تک کچھ نہیں بتایا گیا۔
یونیفارم اور سادہ کپڑوں میں سیکورٹی کے اہلکار یہاں سے گزرنے والوں کی شناختی دستاویزات کی پڑتال اور صحافیوں کو یہاں رپورٹنگ کرنے سے روک رہے ہیں۔
گزشتہ سالوں کی طرح چین نے اس مرتبہ بھی برسی کے موقع پر درجنوں کارکنوں، صحافیوں اور وکلا کو حراست میں لیا یا گھروں میں نظر بند کیا۔
امریکہ نے چین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بیجنگ کے ناقدین کو رہا کرتے ہوئے تیانانمین اسکوائر کے واقعے پر عوامی سطح پر بحث کی اجازت دے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ان گرفتاریوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ صرف ’’قانون توڑنے والوں‘‘ کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے نا کہ ’’مخالف رائے رکھنے والوں‘‘ کے خلاف۔
شین ٹونگ سال سوئم کا بیجنگ یورنیورسٹی کا طالب علم تھا جب تیانانمین اسکوئر کا سانحہ پیش آیا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ فوج کی طرف سے شہریوں کو ہلاک کرنے کی توقع نہیں کررہے تھے۔
’’یہ کچھ ایسی حرکت تھی کہ ایک دن پہلے آپ نے سوچا کہ نا ممکن ہے اور ایک دن بعد وہ ناگزیر ہوگئی۔ تو میں کہوں گا کہ کوئی بھی توقع نہیں کررہا تھا۔‘‘
ٹونگ کو اس کارروائی کے بعد اپنے تحفظ کے لیے چین چھوڑنا پڑا۔
1989ء کے مظاہروں میں ہر شعبہ زندگی کے شہریوں نے شرکت کی تھی جن میں کمیونسٹ پارٹی کے اراکین بھی شامل تھے۔ کئی لوگ آزادی رائے، بڑھتی ہوئے عدم مساوات اور سرکاری سطح پر بدعنوانی کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کررہے تھے۔