افغانستان مفاہمت کے لیے امریکہ کے اعلیٰ مذاکراتی سفارت کار زلمے خلیل زاد نے طالبان کے ساتھ امن مصالحت کے سلسلے میں ہونے والے نو ادوار کے بعد طے پائے گئے سمجھوتے کا مسودہ محکمہ خارجہ کے سُپرد کر دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق وزیر خارجہ مائک پومپیو نے اس معاہدے سے اختلاف کرتے ہوئے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
زلمے خلیل زاد نے اس سے قبل افغانستان کا دورہ کر کے افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کو مسودے پر اعتماد میں لینے کی کوشش کی تھی۔
اس ملاقات کے بعد افغان حکومت کے ترجمان نے ٹوئٹر بیان کے ذریعے مسودے کے بعض پہلوؤں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اختلافات ختم کرنے کے لیے مزید بات چیت کی ضرورت ہے۔
اُدھر افغانستان میں امریکہ کے سابق سفیر رائن کروکر نے اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں اس معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ امریکہ کی طرف سے ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہو گا۔
افغان امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان نویں دور کے بعد دسواں دور بھی یقینی طور پر ہو گا جس میں اختلافی معاملات پر مفاہمت پیدا کر کے حتمی معاہدے پر پہنچنے کی کوشش کی جائے گی۔
افغان اُمور کے ماہر میر واعظ افغان کا کہنا ہے کہ اس وقت افغان امن مصالحت کے چار اہم فریقین میں سے تین یعنی امریکہ طالبان اور پاکستان ایک پیج پر ہیں اور ان تینوں میں بہت سے معاملات سے متعلق مفاہمت ہو چکی ہے۔ تاہم چوتھے فریق یعنی افغان حکومت کو اب بھی بہت سے امور پر تحفظات ہیں جن کی وجہ سے وہ تنہا رہ گئی ہے۔
میر واعظ افغان کا کہنا ہے کہ افغان حکومت نے اس بات کو محسوس کر لیا ہے اور وہ باقی تینوں فریقین کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔
میر واعظ افغان نے طالبان ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ جن امور پر اختلافات اب بھی موجود ہیں ان میں سرفہرست یہ ہے کہ امریکی انخلاء کے بعد طالبان افغانستان کو جمہوری ملک کے بجائے اسلامی امارت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں جہاں وہ میڈیا پر سخت پابندیوں کے علاوہ خواتین کو پردے میں رکھتے ہوئے ان کے سکول اور دفاتر کو الگ کرنا چاہتے ہیں۔
میر واعظ کے بقول طالبان موسیقی، فلموں اور ٹی وی ڈراموں جیسی تفریح پر بھی مکمل پابندی عائد کرنا چاہتے ہیں۔
اس کے علاوہ قیدیوں کے حوالے سے بھی اختلافات سامنے آئے ہیں۔ طالبان کا مطالبہ ہے کہ ان کے 5,000 کے لگ بھگ قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ اس سلسلے میں طالبان نے 1,500 قیدیوں کے ناموں کی ایک فہرست بھی زلمے خلیل زاد کے حوالے کی تھی۔ تاہم زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ ان قیدیوں کو رہا کرنا افغان حکومت کے دائرہ اختیار میں ہے اور اس سلسلے میں طالبان کو افغان حکومت سے براہ راست بات کرنا ہوگی۔
افغان امور کے ایک اور ماہر اور سینئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اختلافات ختم کرنے کے لیے امریکہ اور طالبان کے درمیان بات چیت کا دسواں دور بھی ہو گا جس میں اختلافات ختم کر لیے جائیں گے۔
تاہم رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ حقیقتاً امریکہ اور طالبان کے درمیان ہے اور طالبان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ان علاقوں میں جنگ بندی پر رضا مند ہو جائیں گے جہاں سے امریکی فوجوں کا انخلا ہو گا۔
وہ کہتے ہیں کہ اس معاہدے میں افغان حکومت شامل نہیں ہے اس لیے طالبان افغان حکومت کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ نہیں کریں گے اور حملے جاری رکھیں گے۔
رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ حتمی معاہدہ طے ہو جانے کے بعد اس پر عمل درآمد کرانا انتہائی پیچیدہ عمل ہو گا۔ تاہم میر واعظ افغان کے مطابق طالبان ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ بھی بات چیت کے لیے رضامند ہیں اور حتمی معاہدے میں امریکہ، طالبان، افغان حکومت اور پاکستان سمیت چاروں فریقین میں مفاہمت حاصل کر لی جائے گی۔