طالبان نے کہا ہے کہ امریکہ سے امن معاہدہ اس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ وہ افغان حکومت سے جنگ بندی کرلیں گے۔ بلکہ وہ اس معاہدے کے بعد بھی افغان حکومت پر حملے جاری رکھیں گے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق افغان طالبان کے دو اہم رہنماؤں کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اپنے بیان میں کہنا تھا کہ وہ امریکہ کی حمایت یافتہ افغان حکومت سے لڑائی جاری رکھیں گے۔
طالبان کے ایک اہم سینیئر کمانڈر کا کہنا تھا کہ ہم افغان حکومت سے لڑائی جاری رکھتے ہوئے اُن کی طاقت کو اپنی قوت سے روکیں گے۔
ایک اور طالبان رہنما نے کہا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان افغان جنگ کے خاتمے اور امریکی فوج کے انخلا کے لیے ہونے والے مذاکرات میں پیش رفت ہو رہی ہے اور اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ امن معاہدہ رواں ہفتے طے پا جائے گا۔
طالبان رہنما کا کہنا تھا کہ اس امن معاہدے کے تحت امریکہ کو افغانستان کی حکومت کی حمایت ختم کرنا ہوگی۔ امریکہ کی فوجیں ہم سے جنگ کرنے اس لیے نہیں آئی تھیں کہ وہ افغان حکومت اور فورسز کی معاونت کر سکیں۔
واضح رہے کہ طالبان کی جانب سے یہ بیانات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر ہونے والے مذاکرات کا نواں دور دوحہ میں جاری ہے۔
امریکی حکام نے طالبان رہنماؤں کے اس بیان پر فی الحال کوئی ردّعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
امریکہ اور طالبان 18 برسوں سے جاری طویل افغان جنگ کے خاتمے کے لیے گزشتہ ایک سال سے مذاکرات میں مصروف ہیں۔
امریکی حکام کی کوشش ہے کہ وہ طالبان کو افغان حکومت سے مذاکرات پر قائل کر سکیں اور ان کے درمیان کوئی جنگ بندی کا معاہدہ عمل میں لا سکیں جب کہ دوسری جانب طالبان افغان حکومت کو تسلیم نہیں کرتے اور ان سے بات کرنے سے انکار کرتے ہیں۔
افغانستان اور امریکہ کے حکومتی حلقوں میں بے چینی اور عدم اعتماد کی فضا بھی پائی جاتی ہے۔ کئی حلقوں کو اس بات کا خدشہ ہے کہ امریکی فوج کے انخلا سے افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوجائے گی اور کہیں ایسا نہ ہو کہ اقتدار دوبارہ شدّت پسندوں کے پاس آجائے۔
سفارتی ذرائع اس بات کی امید ظاہر کر رہے ہیں کہ مذاکرات کے حالیہ دور میں امن معاہدہ طے پا جائے گا جس کے بعد امریکہ افغانستان سے اپنی 50 فی صد فوج واپس بلا لے گا جب کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان لڑائی کے خاتمے کے لیے علیحدہ مذاکرات کیے جائیں گے۔
ایک سفیر نے کہا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جنگ بندی کے لیے علیحدہ معاہدے کی ضرورت ہے جس پر بات ہونا ابھی باقی ہے۔
دوسری جانب امریکہ کے سینیٹر لنزے گراہم نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو افغانستان سے فوج کے انخلا سے خبردار کیا ہے۔
اتوار کو مقامی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ری پبلکن سینیٹر لنزے گراہم نے امریکی فوج کی افغانستان میں موجودگی کو انشورنس پالیسی قرار دیا اور کہا کہ مستقبل میں داعش اور القائدہ جیسی تنظیموں کو روکنے کے لیے افغانستان میں امریکہ کی انسدادِ دہشت گردی کی فوج کی موجودگی لازمی ہے۔
لنزے گراہم نے مزید کہا کہ اگر افغانستان میں امریکہ کے فوجیوں کی تعداد 8600 سے کم کی گئی تو امریکہ کو اس کے تباہ کن نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔