اِن دِنوں، جب ٹرمپ انتظامیہ کی جنوبی ایشیا پالیسی ابتدائی مراحل میں ہے امریکی وزارت خارجہ نے نمائندہ خصوصی براۓ افغانستان پاکستان کے دفتر سے منسلک کلیدی ٹیم کو ختم کر دیا ہے، جس کا بنیادی مینڈیٹ افغانستان میں مفاہمتی عمل کو فروغ دینا تھا۔
یاد رہے کہ چند مہینوں سے واشنگٹن میں یہ قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نمائندہ خصوصی کی پوزیشن کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ سے منسلک ذرائع نے معاملے کی سنجیدگی کے حوالے سے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ’وی او اے اردو‘ کو بتایا کہ ستمبر 29 نمائندہ خصوصی کے دفتر سے منسلک ٹیم کا آخری دن تھا۔
ذرائع کے مطابق، اس ٹیم کے زیادہ تر افراد کنٹریکٹ پر رکھے گیے سرکاری ملازمین تھے جن کےکنٹریکٹ ستمبر کے مہینے میں ختم ہو رہے تھے اور اس فیصلے کے بعد ان کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں کی گئی جس کے باعث ان کی نوکریاں ستمبر کے اختتام پر ختم ہوگئیں۔
اسی پس منظر میں سینئیر امریکی سفارت کاروں سے کی گئی گفتگو پر ان حضرات کا کہنا تھا کہ نمائندہٴ خصوصی کے دفتر کے تین بنیادی مقاصد تھے۔ ایک تو یہ افغانستان میں طالبان سمیت دیگر سیاسی دھڑوں کے درمیان مفاہمتی عمل کو فروغ دینا اور پھر بین الاقوامی برادری میں ان کوششوں کے لیے حمایت حاصل کرنا اور یورپی یونین اور نیٹو کے زیر اہتمام سمٹ کے لیے فنڈ اکٹھے کرنا؛ اور تیسرا ہدف افغانستان کی قومی یکجہتی حکومت کی کامیابی کو یقینی بنانا۔
افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبدالله عبدالله کے درمیان حکومتی اشتراک کے فارمولے کا کریڈٹ بھی نمائندہٴ خصوصی کے دفتر کو جاتا ہے۔
اس پیش رفت کے ساتھ، قائم مقام نمائندہٴ خصوصی، ایلس ویلز کا منصب ابھی قائم رکھا گیا ہے اور انہیں ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ اپنے پچھلے سالوں میں حاصل کیے گیے تجربے کو سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے جنوبی ایشیا بیورو میں کامیابی سے ضم کرنے میں کردار ادا کریں۔ ایلس ویلز قائم مقام انڈر سیکرٹری کے فرائض بھی سر انجام دے رہی ہیں۔
اس معاملے پر اپنے ردِ عمل میں امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’’ہم اس وقت ان ابتدائی مراحل میں ہیں جہاں اس امر کا تعین کیا جا رہا ہے کہ کونسے ایسے سرکاری اور انتظامی اقدامات کی ضرورت ہے جن سے نمائندہٴ خصوصی کے تحت چلنے والے معاملات کو جنوبی ایشیا بیورو میں ضم کیا جا سکے۔ لیکن، اس میں کتنا وقت لگے گا اور یہ کیسے ہوگا اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
اس پیش رفت پر وی او اے اردو نے سابق نمائندہٴ خصوصی رچرڈ اولسن سے بات کی جن کا کہنا تھا کہ ’’خطرہ اس بات کا ہے کہ خصوصی نمائندے یا سفیر کی ضرورت پھر بھی رہے گی، جس کی مکمل توجہ افغانستان میں قیام امن مر مرکوز ہو، جس کا مطلب ہے افغان مسئلے کے سیاسی حل کی تلاش۔ بد قسمتی سے نمائندہٴ خصوصی کے دفتر کے بند ہونے سے اور غیر مستقل ملازمین کے جانے سے ہماری بہت سی صلاحیتیں متاثر ہوئی ہیں اور ادارتی علم میں کمی آئی ہے۔ طالبان کے بارے میں جامع فہم اور یہ کہ ان سے مذاکرات کیسے کیے جائیں۔ اگر آپ مسئلے کے سفارتی حل کی جانب جا رہے ہیں تو آپ اس دوران میں ٹیم بنانے کا انتظار نہیں کر سکتے‘‘۔
یاد رہے کہ نمائندہٴ خصوصی کے دفتر کا آغاز اوباما دور کے اوائل میں کیا گیا تھا جب افغانستان میں امریکی فوج کی بڑی تعداد آپریشن میں مشغول تھی اور اس منصب کو ختم کرنے کے ابتدائی اقدامات بھی اوباما انتظامیہ کے آخری دنوں میں لیے گیے تھے۔