پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکہ کے سابق نمائندہٴ خصوصی رچرڈ اولسن نے کہا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ دفاعی امور سمیت دیگر سٹریٹیجک معاملات پر مزید ہم آہنگی کا خواہاں ہے، جبکہ پاکستان میں موجود شدت پسند دونوں ملکوں کے تعلقات میں رکاوٹ ہیں۔
وائس آف امریکہ اردو سروس سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے، رچرڈ اولسن، جو امریکی سفیر برائے پاکستان بھی رہ چکے ہیں، نے کہا ہے کہ ’’ٹرمپ انتظامیہ کے لیے پالیسی چیلنج پاکستان کو طالبان اور حقانی نیٹ ورک سے روابط منقطع کرنے پر رضامند کرنا ہے‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس بات پر کوئی شک نہیں ہے کہ ’’پاکستان کے طالبان اور حقانی نیٹ ورک سے روابط ہیں، اور ایسے میں، پاکستان کا یہ کہنا کہ وہ امریکہ کا اتحادی ہے، اعتبار کرنا مشکل ہے‘‘۔
اپنی گفتگو میں، سابق امریکی سفیر نے اس بات پر بھی توجہ دلائی کہ ’’افغانستان کے تناظر میں پاکستان کے قومی سلامتی کے حوالے سے شبہات جائز ہیں؛ اور یہ کہ پاکستان اس بات کی یقین دہانی چاہتا ہے کہ افغانستان کی سر زمین پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال نہ ہو‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو اس معاملے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
امریکہ کی نئ افغان پالیسی کا زکر کرتے ہوۓ ایمبیسیڈر اولسن کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اعلان کردہ افغان پالیسی میں فوجی پہلووں پر توجہ دی گئ ہے جبکہ مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ صدر ٹرمپ نے اپنی اگست اکیس کی تقریر میں کہا تھا۔
انہوں نے اس نقطے پربھی زور دیا کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں قائم طالبان کا دفتر بند کرنے سے امن مذاکرات کی کوششیں متاثر ہوں گی اور امریکہ کو طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مزید علاقائی اور بین الاقوامی نمائندوں کو شامل کرنا چاہیے۔
امریکہ افغانستان پاکستان اور چین کے نمائندگان پر مبنی چار فریقی گروپ کی امن مذاکرات کی کوششوں پر بات کرتے ہوۓ انہوں نے کہا کہ طالبان عوامی سطح پر مذاکرات کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے تھے جس کے باعث قیام امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کو دھچکا لگا۔ لیکن انہوں نے زور دیا کہ مسئلے کے سیاسی حل کے لیے طالبان کو مذاکرات کی میز پر آنا ہو گا۔
سفیر اولسن کا پورا انٹرویو دیکھنے کیلئے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کریں: