امریکہ نے کہا ہے کہ افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور کو فوری خطرہ سمجھتے ہوئے نشانہ بنایا گیا ہے اور ان پر حملہ طالبان کے لیے واضح اشارہ ہے کہ امن و مصالحت ہی ان کے لیے واحد راستہ ہے۔
جمعرات کو محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے واشنگٹن میں معمول کی بریفنگ کے دوران پوچھے گئے سوالات کے جواب میں کہا کہ ملا منصور کو ان کی سابق سرگرمیوں اور افغان فورسز کے علاوہ افغانستان میں امریکی اہلکاروں کے خلاف حملوں کے ان کے آئندہ کے ارادوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نشانہ بنایا گیا۔
ملا منصور گزشتہ ہفتے افغان سرحد کے قریب پاکستانی علاقے میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے اور رواں ہفتے ہی افغان طالبان نے مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کو اپنا نیا سربراہ مقرر کیا۔
مارک ٹونر نے اپنے ملک کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ "ان (طالبان) کے پاس دوبارہ مذاکرات میں شامل ہونے کا موقع ہے اور ہماری یہ توقع ہے کہ وہ (طالبان) شاید یہ فیصلہ کر لیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ افغانوں کی زیر قیادت اور ان کی شمولیت سے امن و مصالحت کے عمل کی حمایت کرتا ہے اور اس ضمن میں افغان طالبان کی نئی قیادت کی طرف سے کی جانے والے کسی بھی کوشش کا خیر مقدم کیا جائے گا۔
امریکہ یہ کہہ چکا ہے کہ ملا منصور افغان امن عمل کی مخالفت کرتے رہے ہیں جب کہ مذاکراتی عمل کی بحالی میں شامل ملک پاکستان کا موقف اس سے مختلف اور اس کے بقول ملا منصور پر ڈرون حملے سے امن کی کوششیں متاثر ہو سکتی ہے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر نے پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اس کی سرزمین استعمال کرنے والے تمام گروپوں بشمول طالبان کے معاملے کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔
"ہم ان (پاکستان) پر زور دیتے ہیں کہ اور ماضی میں بھی ایسا ہی کرتے رہے ہیں۔ ہم ان پر ایسا کرنے پر زور دیتے رہیں گے اور ان کی سر زمین پر موجود حقیقی خطرے سے نمٹنے کے لیے ان کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔"
پاکستان ڈرون حملوں کو اپنی خود مختاری اور سالمیت کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کرتا ہے جب کہ امریکہ اسے دہشت گردوں کے خلاف ایک موثر ہتھیار گردانتے ہوئے اپنی قومی سلامتی کے خطرہ سمجھے جانے والے عناصر کو جاسوس طیاروں سے نشانہ بنانے کا عزم ظاہر کر چکا ہے۔