امریکہ اور روس نے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق کسی مخصوص تجویز کی ضرورت پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
یہ بات چیت ایسے وقت ہوئی ہے عالمی برداری کو خدشہ ہے کہ تہران جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف ہے۔
روسی وزیر خارجہ سرگی لاوروف نے اپنے امریکی ہم منصب جان کیری سے پیر کو ملاقات کے بعد بتایا کہ ایران بظاہر چاہتا ہے کہ ان اقدامات کی شفاف انداز میں وضاحت کی جائے جن کی مدد سے وہ اپنے جوہری پروگرام کی پرامن حیثیت ثابت کر سکتا ہے۔
لاوروف نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے پانچ مستقل اراکین اور جرمنی کے عہدیداروں کے ایران سے آئندہ ہفتے جنیوا میں ہونے والے مذاکرات میں یہ معاملہ بھی متوقع طور پر موضوع بحث ہوگا۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا تھا کہ ایران کی حالیہ کوششیں امریکہ کے لیے حوصلہ افزا ہیں لیکن اُن کے بقول بیانات نہیں بلکہ عملی اقدامات سے ہی تبدیلی ممکن ہے۔
’’پس ہمیں ایران سے ایسی تجاویز درکار ہیں جن میں یہ ظاہر کیا جائے کہ وہ (تہران) دنیا پر کیسے واضح کرییں گے کہ اُن کا پروگرام پُر امن (مقاصد کے لیے) ہے۔
’’ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ اگر ایسے اشاروں کی نشاندہی ہوتی ہے تو امریکہ اور اس کے اتحادی ان اقدامات کا مناسب انداز میں جواب دینے کو تیار ہیں۔‘‘
جان کیری نے کہا کہ چھ ممالک پر مشتمل گروپ کی اس پیش کش پر ایران نے ابھی تک کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا جس کے تحت تہران کو یورینیم کی 20 فیصد تک افزودگی روکنے اور اپنی ایک جوہری تنصیب ہر افزدوگی کا عمل روکنے کی تجویز دی گئی تھی۔
ایرانی وزیر خارجہ جاوید ظریف نے ایک روز قبل کہا تھا کہ یہ پیش کش اب قابل عمل نہیں اور گروپ کو آئندہ ہفتے ہونے والے مذاکرات میں ’’نئے نظریے‘‘ کے ساتھ آنا چاہیئے۔
تہران کا یہ موقف رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے اور وہ چاہتا ہے کہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے اس پر عائد پابندیوں کو ختم کیا جائے۔
ایران جیسے ممالک کی جانب سے بیلسٹک میزائل کے حملے کے خطرے کے پیش نظر امریکہ نے یورپ میں میزائل شیلڈ نصب کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ روس اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ یہ نظام اس کے اپنے اسٹیٹجک میزائل فورس کو غیر موثر بنا دے گا۔
یہ بات چیت ایسے وقت ہوئی ہے عالمی برداری کو خدشہ ہے کہ تہران جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں مصروف ہے۔
روسی وزیر خارجہ سرگی لاوروف نے اپنے امریکی ہم منصب جان کیری سے پیر کو ملاقات کے بعد بتایا کہ ایران بظاہر چاہتا ہے کہ ان اقدامات کی شفاف انداز میں وضاحت کی جائے جن کی مدد سے وہ اپنے جوہری پروگرام کی پرامن حیثیت ثابت کر سکتا ہے۔
لاوروف نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے پانچ مستقل اراکین اور جرمنی کے عہدیداروں کے ایران سے آئندہ ہفتے جنیوا میں ہونے والے مذاکرات میں یہ معاملہ بھی متوقع طور پر موضوع بحث ہوگا۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا تھا کہ ایران کی حالیہ کوششیں امریکہ کے لیے حوصلہ افزا ہیں لیکن اُن کے بقول بیانات نہیں بلکہ عملی اقدامات سے ہی تبدیلی ممکن ہے۔
’’پس ہمیں ایران سے ایسی تجاویز درکار ہیں جن میں یہ ظاہر کیا جائے کہ وہ (تہران) دنیا پر کیسے واضح کرییں گے کہ اُن کا پروگرام پُر امن (مقاصد کے لیے) ہے۔
’’ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ اگر ایسے اشاروں کی نشاندہی ہوتی ہے تو امریکہ اور اس کے اتحادی ان اقدامات کا مناسب انداز میں جواب دینے کو تیار ہیں۔‘‘
جان کیری نے کہا کہ چھ ممالک پر مشتمل گروپ کی اس پیش کش پر ایران نے ابھی تک کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا جس کے تحت تہران کو یورینیم کی 20 فیصد تک افزودگی روکنے اور اپنی ایک جوہری تنصیب ہر افزدوگی کا عمل روکنے کی تجویز دی گئی تھی۔
ایرانی وزیر خارجہ جاوید ظریف نے ایک روز قبل کہا تھا کہ یہ پیش کش اب قابل عمل نہیں اور گروپ کو آئندہ ہفتے ہونے والے مذاکرات میں ’’نئے نظریے‘‘ کے ساتھ آنا چاہیئے۔
تہران کا یہ موقف رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے اور وہ چاہتا ہے کہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے اس پر عائد پابندیوں کو ختم کیا جائے۔
ایران جیسے ممالک کی جانب سے بیلسٹک میزائل کے حملے کے خطرے کے پیش نظر امریکہ نے یورپ میں میزائل شیلڈ نصب کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ روس اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہہ چکا ہے کہ یہ نظام اس کے اپنے اسٹیٹجک میزائل فورس کو غیر موثر بنا دے گا۔