رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: عمران خان کا جنوبی وزیرستان کی طرف مارچ


تجزیہ کاروں اور سیاسی مبصّروں نے اسے ایک بھونڈی کوشش سے تعبیر کیا ہے جِس کا اصل مقصدآنے والے قومی انتخابات سے قبل عوامی حمائت کا حصول تھا: لاس نجلیس ٹائمز

’لاس انجلیس ٹائمز ‘ کہتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے لیڈر عمران خان کو، جو پچھلے سال بڑے بڑے سیاسی جلسے کر کے ایک طاقت ور سیاسی شخصیت کے رُوپ میں اُبھرے تھے، اتوار کے روز پاکستانی طالبان کی بغاوت کے ایک خوفناک گڑھ، جنوبی وزیرستان کے قبائیلی علاقے میں اپنی عوامی حمائت کا مظاہرہ کرنے میں ناکامی ہُوئی، اور اس کے بدلے انہوں نے اس کی سرحد سے25 میل دور ٹانک میں ایک مظاہرے کی قیادت کی۔ اس ریلی کا مقصد اُن قبائیلی علاقوں میں اسلامی عسکریت پسندوں کے خلاف سی آئی اے کے ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج کرنا تھا۔

لیکن، اخبار کے بقول، تجزیہ کاروں اور سیاسی مبصّروں نے اسے ایک بھونڈی کوشش سے تعبیر کیا ہے جس کا اصل مقصد آنے والے قومی انتخابات سے قبل عوامی حمائت کا حصول تھا۔

تنقید اس وجہ سے سخت تھی کہ ہزاروں حامیوں کو ایک ایسے علاقے میں لے جانے کی کوشش کی جا رہی تھی جو عسکریت پسندی کے گڑھ ہیں اور ڈرون حملوں کی مخالفت کرنے والے اُن 30امریکی باشندوں کو شامل کرنے سے خطرہ بڑھ جانے سے نقطہ چینی میں اضافہ ہو گیاجو عمران خان کے مظاہرے میں شرکت کے لئے امریکہ سے آئے تھے۔


اخبار کہتا ہے کہ اس جلوس کا ہدف ڈرون طیاروں کے حملے تھے۔ لیکن ان حملوں کا بڑا نشانہ جنو بی وزیرستان کا علاقہ نہیں بلکہ پڑوسی شمالی وزیرستان ہے جس پر مقابلتاً کہیں زیادہ ڈرون حملے ہوئے ہیں۔

اس سال جنوبی وزیرستان پر چار ڈروں حملوں کے مقابلے میں شمالی وزیرستان پر 33 ڈرون حملے ہوئے ہیں۔

آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:

please wait

No media source currently available

0:00 0:00:00 0:00

اور، جیسا کہ اخبار کہتا ہے عمران خان نے ابتدا میں شمالی وزیرستان جانے ہی کا اعلان کیاتھا ، لیکن پھر یہ سوچ کر کہ اس میں بُہت زیادہ خطرہ ہےجنوبی وزیرستان کا قرّہٴ فال نکالا۔

اخبار کہتا ہے کہ شمالی وزیرستان نہ صرف افغان طالبان کے خوفناک اتّحادی حقّانی نیٹ ورک کا گڑھ ہے ، بلکہ القاعدہ لشکریوں اور کمانڈروں کی بھی آماجگاہ ہے اور پاکستانی قبائیلی علاقے کا سب سے زیادہ خطرناک حصّہ تصوّر کیا جاتا ہے۔

وینیزویلا کے صدر ہُیوگو شاویز چھ سال کی مدت کے لئے دوبارہ منتخب ہو گئے ہیں۔’ وال سٹریٹ جرنل‘ کے مطابق اتوار کے انتخابات میں انہوں نے اپنے مدّمقابل آن ریک کیپ ری لیسHenrique Caprilesپر توقع سے کہیں زیادہ ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کر ہے، اور اس طرح اُن کے چودہ سالہ دور حکومت کو، جو اب تک کا سب سے بڑا چیلنج درپیش تھا، اُس پر اُنہوں نےقابو پالیا ہے۔ حزب مخالف کے لیڈر کو مسٹر شاویز 74 لاکھ ووٹوں کے مقابلے میں 60 لاکھ ووٹ ملے ہیں اور اُنہوں نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے مسٹر شاویز کو مبارک باد دی ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ مسٹر شاویز کی کامیابی پر واشنگٹن کو مایوسی ہوگی جسے امید تھی کہ اگر وُہ ہار گئےتو امریکہ کے خلاف اُن کی دُشنام طرازی کا خاتمہ ہو جائے گااور ایران، روس اور بیلا روس جیسے غنیموں کے ساتھ وینیزویلا کا گٹھ جوڑ ختم ہو جائے گا۔البتہ، جیسا کہ اخبار کہتا ہے ، کیوبا ، بیجنگ ، اور ماسکو کو وینیزویلا کےانتخابی نتائج سے خوشی ہوئی ہوگی ۔ چین نے وینیزویلا کو40 ارب ڈالر کا ایک مستقل فنڈ مہیّا کر رکھا ہے جس کا سرمایہ وینیزویلا کے تیل کے محاصل سے آتا ہے۔ اسی طرح وینیزویلا کے اسلحے کا ایک بڑا ذریعہ رُوس ہے۔

اخبار ’کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ صدارتی انتخابات کے رواں سال میں امیر اور غریب کی بحث پُھوٹ کا باعث بنی ہُوئی ہے۔

اور اخبار کے بقول، صدر اوبامہ پر کڑی تنقید کی گئی جب اُنہوں نے صنعت کاروں سے یہ کہا کہ انہیں یہ نہ بُھولنا چاہئیے کہ اُن کی صنعت کا دارومدار اُس بنیادی ڈھانچے پر جسے عوام سے جمع کئے ہوئے ٹیکسوں کی بدولت تعمیر کیا گیا ہے اور اسے آپ لوگوں نے نہیں بنایا۔

اُدھر، اُن کے ری پبلکن مدّمقابل مٕٹ رامنی ایک اور بحث میں اُلجھے ہُوئے ہیں جو چندہ جمع کرنے کی ایک تقریب میں رازداری میں دئے گئے ایک بیان کی وجہ سے شرُوع ہوئی ہے اور جس میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ کی آدھی آبادی انکم ٹیکس نہیں دیتی اور اپنے آپ کو سرکاری معاونت کی حقدار سمجھتی ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ امریکی جانتے ہیں کہ ملک میں غربت موجود ہے، لیکن ان کے درمیان اکثر اس بات کا اختلاف رائے ہوتا ہے کہ غریب یا مفلس ہے کون۔


پچھلے ماہ امریکہ کے مردم شماری کے دفتر نے جو اعدادو شمار جاری کئے تھے ان کے مطابق غرباٴ کی مجموعی تعداد چار کروڑ 62 لاکھ ہے، جو ملک کی کُل آبادی کا پندرہ فیصد ہے۔


اخبار کہتا ہے کہ اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ملک ابھی تک بھاری کسادبازاری کے نتائج بُھگت رہا ہے اور جیسا کہ سینٹ لُوئی کی واشنگٹن یونیورسٹی کے سماجی بہبود کے پروفیسر مارک رینک کہتے ہیں، غربت اس لئے نہیں بڑھی کہ لوگوں نے کام کم کر دیا ہے
یا محنت کرنا بند کر دی ہے، بلکہ اس لئے کہ اچھا محنتانہ دینے والے روزگار کے کافی مواقع میسّر نہیں ہیں۔
XS
SM
MD
LG