میانوالی —
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا امریکی ڈرون حملوں کے خلاف اسلام آباد سے وزیرستان کے لیے روانہ ہونے والا ’’امن کارواں‘‘ ہفتہ کی شام ڈیرہ اسماعیل خان پہنچ گیا۔
اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے مرکزی دفترسے تقریبا 200 گاڑیوں کا یہ قافلہ عمران خان کی قیادت میں روانہ ہوا۔ اس کارواں میں کوڈ پنک نامی تنظیم سے تعلق رکھنے والے 30 سے زائد امریکیوں پر مشتمل گروپ بھی شامل ہے۔
دوران سفر کارواں میں مزید لوگ بھی شامل ہوتی گئیں اور پنجاب کے شہر تلہ گنگ تک پہنچتے پہنچتے ان کی تعداد لگ بھگ پانچ سو سے تجاوز کرگئی۔ قافلے میں وزیرستان سے آئے ہوئے متعدد لوگ بھی شامل ہوگئے۔
راستے میں متعدد جگہوں پر تحریک انصاف کے درجنوں استقبالہ کیمپ بھی لگائے گئے ہیں جہاں جماعت کے حامی قافلے کے شرکا کا ڈھول باجوں اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کرکے استقبال کرتے رہے۔
قافلے میں شامل گاڑیوں پر ڈروں حملے میں مبینہ طور پر ہلاک ہونے والے مرد و خواتین اور بچوں کی بڑی بڑی تصاویر بھی چسپاں ہیں۔
تقریباً آٹھ گھنٹے کی مسافت طے کر لگ بھگ تین ہزار افراد پر مشتمل ہفتہ کی سہ پہر یہ ’امن کارواں‘ میانوالی پہنچا جہاں عمران خان نے اپنے حامیوں سے خطاب کیا۔ مختصر قیام کے بعد یہ قافلہ ڈیرہ اسماعیل خان کے لیے روانہ ہوا جہاں سے اتوار کی صبح اس کا ارادہ وزیرستان جانے کا ہے۔
کالعدم تحریک طالبان نے گزشتہ روز ایک بیان میں واضح کیا تھا کہ ان کی طرف سے عمران خان کی ریلی کو تحفظ فراہم کرنے کے دعوے بے بنیاد ہیں جب کہ حکومت بھی سکیورٹی خدشات کا اظہار کر چکی ہے۔
پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان واضح کر چکے ہیں کہ اُن کی قیادت میں احتجاجی ریلی کو حکام نے جس مقام پر روکنے کی کوشش کی شرکا وہیں دھرنا دے کر احتجاج شروع کر دیں گے کیونکہ ان کی جماعت تصادم نہیں چاہتی۔
پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں کا سلسلہ 2004 سے شروع ہوا اور تب سے محتلف مواقعوں پر ان حملوں کے خلاف چھوٹے بڑے احتجاج ہوتے رہے ہیں۔ مگر کسی سیاسی جماعت کا دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ڈرون حملوں سے متاثر علاقے کی جانب یہ پہلا کارواں ہے۔
پاکستان میں ڈرون حملوں کے خلاف چھوٹے بڑے احتجاج ہوتے آئے ہیں لیکن عمران خان کا احتجاجی مارچ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ پہلی مرتبہ ڈرون حملوں کے خلاف کسی ایسے مظاہرے میں امریکی شہری بھی شریک ہوئے ہیں۔ یہ امریکی سابق سفیر این رائٹ کی سربراہی میں پاکستان پہنچے ہیں جو صدر براک اوباما سے مطالبہ کررہے ہیں کہ بقول ان کے ماورائے عدالت لوگوں کو قتل کرنے والے ڈرون حملوں کو بند کیا جائے۔
ان امریکی شہریوں کا کہنا ہے کہ پاکستان آنے کا ان کا ایک مقصد امریکی میزائل حملوں میں ہلاک یا زخمی ہونے والے شہریوں کے لواحقین سے معلومات حاصل کرنا ہے تاکہ وطن جاکے وہ امریکی عوام کو بھی غیر قانونی ڈرون کارروائیوں کے بارے میں آگاہی دے سکیں۔
مبصرین کے مطابق پاکستان کی دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے ڈرون حملوں کی کھلے عام مخالفت کے باوجود عمران خان کے امن مارچ میں شرکت سے گریز کرنے کی وجہ سیاسی مفادات ہیں کیونکہ ان دنوں پاکستان کی سیاسی جماعتیں آئندہ انتخابات کے لیے اپنی صفیں منظم کرنے کی کوششیں کررہی ہیں اور ان کو خدشہ ہے کہ وہ عمران خان کی مہم میں شامل ہوکر وہ پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی پوزیشن کو مستحکم کر دیں گی۔
امریکی حکام کا موقف رہا ہے کہ ڈرون حملے القاعدہ اور اس کی حامی تنظیموں کے خلاف مہلک ہتھیار بن چکے ہیں لیکن ان کے بقول یہ کارروائیاں اس مہارت سی کی جاتی ہیں کہ اس میں عام شہریوں کو نقصان نہ پہنچے۔
پاکستانی حکومت ڈرون حملوں کو اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ انسداد دہشت گردی کی جنگ کی کوششوں کے لیے بھی سود مند نہیں ہیں۔
اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے مرکزی دفترسے تقریبا 200 گاڑیوں کا یہ قافلہ عمران خان کی قیادت میں روانہ ہوا۔ اس کارواں میں کوڈ پنک نامی تنظیم سے تعلق رکھنے والے 30 سے زائد امریکیوں پر مشتمل گروپ بھی شامل ہے۔
دوران سفر کارواں میں مزید لوگ بھی شامل ہوتی گئیں اور پنجاب کے شہر تلہ گنگ تک پہنچتے پہنچتے ان کی تعداد لگ بھگ پانچ سو سے تجاوز کرگئی۔ قافلے میں وزیرستان سے آئے ہوئے متعدد لوگ بھی شامل ہوگئے۔
راستے میں متعدد جگہوں پر تحریک انصاف کے درجنوں استقبالہ کیمپ بھی لگائے گئے ہیں جہاں جماعت کے حامی قافلے کے شرکا کا ڈھول باجوں اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کرکے استقبال کرتے رہے۔
قافلے میں شامل گاڑیوں پر ڈروں حملے میں مبینہ طور پر ہلاک ہونے والے مرد و خواتین اور بچوں کی بڑی بڑی تصاویر بھی چسپاں ہیں۔
تقریباً آٹھ گھنٹے کی مسافت طے کر لگ بھگ تین ہزار افراد پر مشتمل ہفتہ کی سہ پہر یہ ’امن کارواں‘ میانوالی پہنچا جہاں عمران خان نے اپنے حامیوں سے خطاب کیا۔ مختصر قیام کے بعد یہ قافلہ ڈیرہ اسماعیل خان کے لیے روانہ ہوا جہاں سے اتوار کی صبح اس کا ارادہ وزیرستان جانے کا ہے۔
کالعدم تحریک طالبان نے گزشتہ روز ایک بیان میں واضح کیا تھا کہ ان کی طرف سے عمران خان کی ریلی کو تحفظ فراہم کرنے کے دعوے بے بنیاد ہیں جب کہ حکومت بھی سکیورٹی خدشات کا اظہار کر چکی ہے۔
پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان واضح کر چکے ہیں کہ اُن کی قیادت میں احتجاجی ریلی کو حکام نے جس مقام پر روکنے کی کوشش کی شرکا وہیں دھرنا دے کر احتجاج شروع کر دیں گے کیونکہ ان کی جماعت تصادم نہیں چاہتی۔
پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں کا سلسلہ 2004 سے شروع ہوا اور تب سے محتلف مواقعوں پر ان حملوں کے خلاف چھوٹے بڑے احتجاج ہوتے رہے ہیں۔ مگر کسی سیاسی جماعت کا دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ڈرون حملوں سے متاثر علاقے کی جانب یہ پہلا کارواں ہے۔
پاکستان میں ڈرون حملوں کے خلاف چھوٹے بڑے احتجاج ہوتے آئے ہیں لیکن عمران خان کا احتجاجی مارچ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ پہلی مرتبہ ڈرون حملوں کے خلاف کسی ایسے مظاہرے میں امریکی شہری بھی شریک ہوئے ہیں۔ یہ امریکی سابق سفیر این رائٹ کی سربراہی میں پاکستان پہنچے ہیں جو صدر براک اوباما سے مطالبہ کررہے ہیں کہ بقول ان کے ماورائے عدالت لوگوں کو قتل کرنے والے ڈرون حملوں کو بند کیا جائے۔
ان امریکی شہریوں کا کہنا ہے کہ پاکستان آنے کا ان کا ایک مقصد امریکی میزائل حملوں میں ہلاک یا زخمی ہونے والے شہریوں کے لواحقین سے معلومات حاصل کرنا ہے تاکہ وطن جاکے وہ امریکی عوام کو بھی غیر قانونی ڈرون کارروائیوں کے بارے میں آگاہی دے سکیں۔
مبصرین کے مطابق پاکستان کی دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے ڈرون حملوں کی کھلے عام مخالفت کے باوجود عمران خان کے امن مارچ میں شرکت سے گریز کرنے کی وجہ سیاسی مفادات ہیں کیونکہ ان دنوں پاکستان کی سیاسی جماعتیں آئندہ انتخابات کے لیے اپنی صفیں منظم کرنے کی کوششیں کررہی ہیں اور ان کو خدشہ ہے کہ وہ عمران خان کی مہم میں شامل ہوکر وہ پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی پوزیشن کو مستحکم کر دیں گی۔
امریکی حکام کا موقف رہا ہے کہ ڈرون حملے القاعدہ اور اس کی حامی تنظیموں کے خلاف مہلک ہتھیار بن چکے ہیں لیکن ان کے بقول یہ کارروائیاں اس مہارت سی کی جاتی ہیں کہ اس میں عام شہریوں کو نقصان نہ پہنچے۔
پاکستانی حکومت ڈرون حملوں کو اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ انسداد دہشت گردی کی جنگ کی کوششوں کے لیے بھی سود مند نہیں ہیں۔