امریکی قومی قرضے کی حد بڑھانے پر اِس وقت جو تعطل جاری ہے اُس پر ’یو ایس اے ٹوڈے‘ اخبار ایک اداریے میں کہتا ہے کہ اگلے ایک ہفتے کے اندر امریکہ کو ایک اقتصادی تباہی کا سامنا ہوگا۔
اگر قرض کی حد نہ بڑھائی گئی جو کہ ایک معمول کا طریقِ کار ہے، تو اُس صورت میں امریکی وفاقی حکومت کو اپنے اخراجات میں نصف کی کمی کرنی پڑے گی اور سود کی ادائگی سے لے کر مستحقین کو چیکوں کی ادائگی تک مشکلات کا شکار ہوگی اور پہلے سے کمزور معیشت کو اور دھچکہ لگے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ مالیاتی مارکیٹ روزبروز تناؤ کا شکارہو رہے ہیں جب کہ استصوابِ رائے کے جائزوں سے ظاہر ہے کہ عام پبلک کو تشویش ہے اور وہ چاہتی ہے کہ واشنگٹن لوگوں کی قسمت سے کھیلنا بند کرکے جلد کوئی سمجھوتہ طے کرے۔
اخبار نے دونوں پارٹیوں کو ملک کے قرضوں کے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور کہا ہے کہ اِس مسئلے کو ایک بحران میں بدلنے کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے تووہ واضح نہیں ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ری پبلیکنوں نے معیشت کو اپنے غیر لچکدار مطالبات کا جس طرح یرغمال بنا لیا ہے، یہ اُسی کا نتیجہ ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ کانگریس کے ری پبلیکن ارکان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اُنھوں نے اخراجات میں کمی کرانے کی بات منوا لی ہے جِس میں ابتدا میں ڈیموکریٹس کو کوئی دلچسپی نہیں تھی، لیکن ری پبلیکن پارٹی کی ہٹ دھرمی نے ملک کو ایسے خود پیدا کردہ بحران کے دہانے تک پہنچا دیا ہے جِس سے قوم کو بہت نقصان پہنچ سکتا ہے اور جِس کا کوئی جواز نہیں ہے۔
اخبار ’کرسچن سائینس مانیٹر‘ کہتا ہے کہ امریکہ کو اِس وقت 1930ء کی دہائی کے بعدسے سب سے زیادہ سنگین اقتصادی ابتلاٴ کا سامنا ہے۔ ایک کروڑ چالیس اور دو کروڑ دس لاکھ کے درمیان امریکیوں کو روزگار کی تلاش ہے جو اُنھیں میسر نہیں ہے اور 80اور90لاکھ کے قریب وہ امریکی ہیں جو ہمہ وقتی کام کی تلاش میں ہیں لیکن جُز وقتی کام کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود اخبار کہتا ہے کہ آپ ان لوگوں کو دنگہ فساد کرتے، لوٹ مار کرتے یا پولیس یا فوج کے ساتھ ہاتھا پائی کرتے ہوئے نہیں پائیں گے۔
اخبار کہتا ہے کہ اِس کی وجہ یہ ہے کہ Big Governmentیا بڑی حکومت موجود ہے جس کی ری پبلیکن پارٹی آتے جاتے مزمت کرتی رہتی ہے۔
سیدھے سادھے الفاظ میں وفاقی حکومت نے اُن کی کفالت کا نظام قائم کر رکھا ہے جو تمام امریکیوں کے لیے موجود ہے۔چناچہ، جب امریکی بدنصیبی کی زد میں آجائیں تو اُن کی کفالت کا نظام موجود ہے۔
اخبار کہتا ہے اِس میں شک نہیں کہ اِس نظام میں کئی عیب بھی ہیں جِن کے باوجود اِس نظام کے کے لیے بڑی رقم درکار ہوتی ہے جو سوشل سکیورٹی، سابق فوجیوں کی مراعات، بچوں والے خاندانوں کی امداد پر خرچ ہوتی ہے اور جِس کے لیے Entitlementsیا استحقاق کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
1960ء میں استحقاق کی مد میں وفاقی بجٹ کا ایک چوتھائی خرچ ہوا تھا۔ سنہ 2002 تک استحقاق کی اِس مد میں بجٹ کا 60فی صد خرچ ہوا۔
اخبار کہتا ہے کہ یہ مسئلہ کھڑا ہی نہیں ہوتا اگر امریکی ٹیکس دینے پر رضامند ہوتے۔ لیکن، بد قسمتی سے وہ اُس کے لیے تیار نہیں۔ اخبار کہتا ہے کہ صدر بل کلنٹن کے دور میں قومی قرض میں استحکام آگیا تھا لیکن جارج ڈبلیو بش کے عہدِ صدارت میں اس میں بے تحاشہ اضافہ ہوا جِس کے بنیادی وجہ بش دور میں ٹیکسوں میں چُھوٹ دینا تھا جِس کے نتیجےمیں وفاقی آمدنی میں دس کھرب ڈالر کی کمی واقع ہوئی ۔
آخر میں اخبار اِس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اِس خسارے کو کم کرنے کا طریقہ حکومت کے ہاتھ پیر کاٹنےکے پرانے دور میں جانا نہیں بلکہ یہ ہے کہ ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے اور استحقاق کی مد میں کفالت کی جائے۔
اخبار کہتا ہے کہ ایسے میں جب ری پبلیکنوں کا سارا زور بجٹ میں کٹوتی پر ہے،سنہ 1800کے دور کی طرف دیکھیں کیا حالات تھے۔إُس وقت یہ واقعی ایک بڑی بُری وفاقی حکومت تھی۔ جب بھی اقتصادی بُحران آتا تو کھانے پینے کی اشیا کے لیے فسادات ہوتے تھے،معاشرتی بدامنی پھیلتی تھی اور صنعتی تشدد برپہ ہوجاتا تھا۔ لیکن، آج یہ حال نہیں ہے جِس کی وجہ بڑی حکومت Big Governmentکی موجودگی ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: