پاکستان اور ہندوستان کے وزائےخارجہ کےدرمیان پچھلے ہفتےکےمذاکرات کے بارے میں ایک اداریے میں’ نیویارک ٹائمز‘ لکھتا ہے کہ دھماکہ خیزتعلقات کے تناظر میں دونوں فریقین کو ایک کمرے میں یکجا کرنا پیش رفت ہے اور کشمیر کے متنازعہ خطے کے بارے میں اُن کے مابین جو سمجھوتے طے پائے ہیں وہ کتنے ہی معمولی کیوں نہ ہوں، اُن کا نہایت ہی خیرمقدم کیا جائے گا۔
اِن سمجھوتوں کے تحت ’لائن آف کنٹرول‘ کےآرپار تجارت کے لیے مقررہ دنوں کی تعداد دوگنی کردی گئی ہے اور جو کشمیری خاندان عزیزوں سے ملنے، سیرو سیاحت کرنےیا مذہبی مقاصد سے ’لائن آف کنٹرول‘ کے آرپار سفر کرنا چاہیں اُس میں بھی وسعت کی اجازت دی گئی ہےاور سفر کے اجازت نامے جاری کرنے میں جلدی برتی جائے گی۔
اخبار کہتا ہے کہ 1947ء کے بعد سے دونوں ملک کشمیر پرتین جنگیں لڑچکے ہیں اور اِس قسم کے چھوٹے چھوٹے اقدام سےباہمی بےاعتباری پرقابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ تین ہفتے قبل ممبئی میں ایک اور دہشت گردانہ حملےکےباوجود جس میں 24افراد ہلاک ہوئے تھے، بھارت کے وزیرِ اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ رابطہ قائم رکھے ہوئے ہیں باوجود یہ کہ پاکستان نے اُن لوگوں پر مقدمہ نہیں چلایا ہے جو 2008ء میں ممبئی پر دہشت گردانہ حملوں کے ذمہ دار تھے اور جِن میں 160افراد ہلاک ہوئے تھے اور جِن کی وجہ سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات منجمد ہوگئے تھے۔ ممبئی کے تازہ حملوں کے لیے ابھی تک بھارت کے اپنے دہشت گردوں پر شبہ کیا جارہا ہے۔
اخبارکہتا ہے کہ پاکستان کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیئے کہ اُس کا ہندوستان کے اثر و نفوذ کو توڑنے کے لیے کشمیر اور افغانستان میں عسکریت پسندوں کا استعمال اُس کی اپنی تباہی کا موجب ہو سکتا ہے اور یہ کہ پاکستان کے تحفظ کو اصل خطرہ ہندوستان سے نہیں بلکہ ملک کے اندر پنپنے والی انتہا پسندی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ صدر اوباما نے افغانستان سے امریکی فوجیں ہٹانے کا جو فیصلہ کیا ہے اُس پر آسانی سے عمل درآمد ہو سکتا ہے بشرطیکہ پاکستان اور بھارت دونوں اِس حل کا حصہ بنیں۔ نئی دہلی کااصرارہے کہ وہ باہر کی ثالثی قبول نہیں کرے گا۔ لیکن، واشنگٹن کو چاہیئے کہ وہ دونوں پر مل جل کر کام کرنے کے لیے زور دیتا رہے۔
صدر اوباما اور کانگریس کے لیڈروں کے مابین قومی قرضے کی حد پر جو سمجھوتہ طے پایا ہے اُس پر اخبار’ بوسٹن گلوب‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ دوسری مصالحتوں کی طرح یہ سمجھوتہ کسی فریق کے لیے بھی فتح کا درجہ نہیں رکھتا۔ البتہ، یہ ایک ایسی ضرورت ہے جسے ڈیموکریٹوں اور ری پبلیکنوں، دونوں کو یکساں طور پر قبول کرلینا چاہیئے۔ قطعِ نظر اِس امر کے کہ اُن کی خواہش تو یہی تھی کہ اُسے کسی اور سمت جانا چاہیئے تھا۔
اِس میں شبہ نہیں کہ اِس پر جو مذاکرات ہوئے اُس کا ماحول منفی تھا۔ لیکن، اِن سے جو نتیجہ برآمد ہوا ہے اُس سے قومی قرض کی حد بھی بڑھ گئی ہے اور اخراجات میں 21کھرب ڈالر کی تخفیف کا عہد بھی کیا گیا ہے۔
اِس سمجھوتے کے یہ بعض مثبت پہلو ہیں۔ اس کی رو سے دو سال تک کوئی سنگین کٹوتیاں کرنے کو مؤخر کر دیا گیا ہے تاکہ معیشت کو بحال ہونے کے لیے زیادہ وقت دیا جائے اور قرض کے حصول کے لیے کافی گنجائش رکھی گئی ہے اور اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ قرض کی حد کا مسئلہ سنہ 2012کے صدارتی انتخابات سے پهلے دوبارہ کھڑا نہیں ہوگا۔
اخبار نے اِس بات کی تعریف کی ہے کہ کانگریس کی ایک بارہ رکنی کمیٹی کو جس میں دونوں پارٹیوں کے چھ چھ رکن ہیں، یہ کام سونپا گیا ہے کہ وہ عرصہٴ دراز سے جاری یا خسارے کو کم کرنے کے لیے اضافی اقدامات کی سفارش کرے۔ اس میں Entitlementsیا استحقاق کی مراعات مثلاً سوشیل سکیورٹی، میڈی کیئر اور میڈک ایڈ وغیرہ پروگرام شامل ہیں جِن میں تبدیلی کرنے پر بھی غور کیا جائے گا اور آمدنی بڑھانے کے خیال سے اُن تمام خامیوں کو دور کیا جائے گا جو محاصل جمع کرنے کے طریقہٴ کار میں پائی جائیں۔
آخر میں اخبار کہتا ہے کہ اِس سمجھوتے کو اکسیر تونہیں مانا جاسکتا، البتہ، اِس سے ملک قرض نادہندہ کے الزام سے بچ گیا ہے جو تباہ کُن ثابت ہو سکتا تھا اور یہ بات تمام فریقوں کو قابلِ قبول ہونی چاہیئے اور بارہ کی کمیٹی کےذمے جو کام سونپا گیا ہے اُس کو دیکھتے ہوئے امریکہ کے لیے یہ قدم یقیناً آگے کی طرف ہے۔
قومی قرضے کی حد پر سمجھوتے پر’ واشنگٹن پوسٹ‘ اخبار کے مطابق اجتماعی طور پر ایوانِ نمائندگان کے ڈیموکریٹوں کو غصہ ہے اور اُن کا کہنا ہے کہ جمہوری طریقِ کار پر دائیں بازو کے ideologuesنے قبضہ کر لیا ہے۔
اخبار کے بقول، بہت سےڈیموکریٹوں کو شکایت ہے کہ وہائٹ ہاؤس نے ری پبلیکنوں کے ساتھ مذاکرات کے دوران اُنھیں بالکل نظر انداز کردیا اور اُن میں سے بہت سوں کو اِس بات پر غصہ ہے کہ آخرش جو مسودہ طے پایا اُس میں غریبوں کے لیے موجود پروگراموں کو بچانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے اور اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس سے متوازن حل کے بارے میں صدر اوباما کا یہ وعدہ پورا نہیں ہوتا کہ کارپوریشنوں اور دولتمندوں کے ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے گا۔
ری پبلیکنوں نے جب مذاکرات شروع کیے تھے تو اُنھوں نے کہہ دیا تھا کہ وہ کسی بھی حال میں ایسے حل کو قبول نہیں کریں گے جِس کے نتیجے میں ٹیکسوں میں اضافہ ہو اور اُنھوں نے اپنا یہ مقصد حاصل کر لیا ۔ اِسی طرح سے ری پبلیکنوں نے اخراجات کی جتنی کٹوتیوں کا مطالبہ کیا تھا اُن میں سے بیشتر اُنھیں حاصل ہوگئیں ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ پبلک مذاکرات اور قانون سازی کے اِس طویل مرحلے سے اِس قدر تنگ تھی کہ ’واشنگٹن پوسٹ‘ اور’ اے بی سی‘ کے ایک نئے جائزے کے مطابق 37فی صد لوگوں کا کہنا تھا کہ صدر کے بارے میں اُن کی رائے غیر موافق ہے۔ اس کے مقابلے میں اُن کی موافقت میں صرف 18فی صدلوگ تھی۔
تقریباً تین چوتھائی امریکیوں نے بحٹ کے مذاکرات کے بارے میں منفی تاثر کا اظہار کیا اور اس کے لیے بیہودہ، قابلِ نفرین اوراحمقانہ کی اصلاحات کا استعمال کیا گیا۔
مجموعی طور پر تین چوتھائی مریکیوں نے منفی اصطلاحات کا سہارا لیا۔ کلمہٴ خیر کہنے والوں کا تناسب صرف دو فی صد تھا۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: