ایک حالیہ جائزے کے مطابق امریکہ میں پہلے سیاہ فام صدر کے انتخاب سے وابستہ توقعات کے برعکس ملک ابھی تک نسلی تعصب سے پاک ’’ ہم آہنگی کی دنیا‘‘ میں داخل نہیں ہوا۔
روزنامہ ’نیو یارک ٹائمز‘ اور ’سی بی ایس‘ چینل کے گزشتہ ہفتے کیے جانے والے ایک عوامی جائزے کے مطابق دس میں سے چھ کے قریب امریکیوں، بشمول سیاہ فام اور سفید فام امریکیوں کی بڑی اکثریت، کا خیال ہے کہ ملک میں نسلی تعلقات کی موجودہ صورتحال خراب ہے، جبکہ دس میں سے چار کا خیال ہے کہ ملک میں نسلی تعلقات مزید خراب ہو رہے ہیں۔
براک اوباما کے انتخاب کے کچھ دیر بعد کیے گئے ایک جائزے میں دو تہائی امریکیوں نے کہا تھا کہ ان کے خیال میں نسلی تعلقات کی صورتحال ’’عمومی طور پر اچھی‘‘ ہے۔
2008 میں اوباما کی پہلی صدارتی مہم کے دوران تقریباً 60 فیصد سیاہ فام امریکیوں نے نسلی تعلقات کی صورتحال کو ’’عمومی طور پر خراب‘‘ قرار دیا تھا۔ ان کے انتخاب کے بعد یہ تعداد نصف ہو گئی تھی۔
تاہم اب 68 سیاہ فام امریکیوں کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں نسلی تعلقات خراب ہیں۔
’نیو یارک ٹائمز‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق یہ ’’صدر اوباما کے دور اقتدار میں سیاہ فام آبادی میں عدم اطمینان کی بلند ترین سطح ہے اور 1992 میں روڈنی کنگ کی مارپیٹ کے ملزم لاس اینجلس پولیس افسروں کی بریت کے بعد شروع ہونے والے فسادات کے بعد ریکارڈ کیے گئے عدم اطمینان کی سطح کے قریب ہے۔‘‘
یہ عوامی جائزہ پولیس افسروں کے ہاتھوں کئی سیاہ فام مردوں کی موت اور چارلسٹن میں ایک سیاہ فام چرچ پر ایک سفیدفام نوجوان کے حملے کے بعد میڈیا کی توجہ اور مظاہروں کے بعد کیا گیا ہے۔
صرف بیس فیصد افراد نے کہا کہ ملک میں نسلی تعلقات بہتر ہو رہے ہیں، جبکہ چالیس فیصد نے کہا کہ نسلی تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
سروے میں شریک نصف تعداد نے کہا کہ سیاہ فام صدر کے انتخاب سے مختلف نسلوں کے آپسی تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑا، جبکہ ایک تہائی نے کہا کہ اس سے ان میں فاصلہ بڑھا ہے۔ صرف پندرہ فیصد نے کہا کہ نسلی تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔