واشنگٹن —
نیویارک کے محکمہٴ پولیس (این وائی پی ڈی) نے منگل کے روز اعلان کیا ہے کہ محکمے کے اُس یونٹ کو ختم کر دیا گیا ہے جو مسلمان برادریوں پر سادہ لباس میں خفیہ نگرانی پر مامور تھا۔
’این وائی پی ڈی انٹیلی جنس ڈویژن‘ نامی نگرانی کا یہ پروگرام مسلمان کمیونٹی کی سخت نکتہ چینی کا ہدف بن چکا ہے، جو محکمے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے تھے۔
بتایا جاتا ہے کہ اِس پروگرام کے تحت، سادہ کپڑوں میں ملبوس اہل کار کتابوں کی دکانوں، ہوٹلوں اور مساجد میں آنے جانے والے افراد کے خلاف جاسوسی پر مامور تھے۔
نگرانی کا یہ خصوصی یونٹ، ’ڈیموگرافکس یونٹ‘ کے نام سے جانا جاتا تھا؛ جو نیویارک شہر اور اُس سے باہر کی مسلمان آبادیوں کی نگرانی کیا کرتا تھا۔ یہ مذہبی اداروں، سماجی کلبوں، تفریحی مقامات اور تقریبات، اور روز مرہ زندگی کے معاملات پر نظر رکھا کرتا تھا۔
سنہ 2011میں ایسو سی ایٹڈ پریس کی طرف سے لکھے گئے مضامین میں نیو یارک پولیس کے اس باقاعدہ سرگرمی کے راز کو افشا کیا گیا تھا، جن کا مقصد اُن کمیونٹیز کی نگرانی کرنا تھا جہاں دہشت گرد ٹولے سرگرم ہوسکتے تھے۔
لیکن، نگرانی کے اس پروگرام میں ایسے افراد اور گروہ بھی شامل تھے، جن کے خلاف دہشت گردی یا جرائم میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہیں تھا۔
تب سے، مسلمان برادری اور شہری حقوق سے وابستہ کئی ایک گروہ اِس پرگرام کو بند کرنے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔
’این وائی پی ڈی انٹیلی جنس ڈویژن‘ نامی نگرانی کا یہ پروگرام مسلمان کمیونٹی کی سخت نکتہ چینی کا ہدف بن چکا ہے، جو محکمے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے تھے۔
بتایا جاتا ہے کہ اِس پروگرام کے تحت، سادہ کپڑوں میں ملبوس اہل کار کتابوں کی دکانوں، ہوٹلوں اور مساجد میں آنے جانے والے افراد کے خلاف جاسوسی پر مامور تھے۔
نگرانی کا یہ خصوصی یونٹ، ’ڈیموگرافکس یونٹ‘ کے نام سے جانا جاتا تھا؛ جو نیویارک شہر اور اُس سے باہر کی مسلمان آبادیوں کی نگرانی کیا کرتا تھا۔ یہ مذہبی اداروں، سماجی کلبوں، تفریحی مقامات اور تقریبات، اور روز مرہ زندگی کے معاملات پر نظر رکھا کرتا تھا۔
سنہ 2011میں ایسو سی ایٹڈ پریس کی طرف سے لکھے گئے مضامین میں نیو یارک پولیس کے اس باقاعدہ سرگرمی کے راز کو افشا کیا گیا تھا، جن کا مقصد اُن کمیونٹیز کی نگرانی کرنا تھا جہاں دہشت گرد ٹولے سرگرم ہوسکتے تھے۔
لیکن، نگرانی کے اس پروگرام میں ایسے افراد اور گروہ بھی شامل تھے، جن کے خلاف دہشت گردی یا جرائم میں ملوث ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہیں تھا۔
تب سے، مسلمان برادری اور شہری حقوق سے وابستہ کئی ایک گروہ اِس پرگرام کو بند کرنے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔