رسائی کے لنکس

'توقع ہے ٹرمپ انتظامیہ بہتر تعلقات اور تعاون کو فروغ دے گی'


نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ

رانا محمد افضل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ امریکی صدر کی تقریر کو پاکستان کے تناظر میں دیکھتے ہوئے انھیں توقع ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے گی۔

امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے منصب کا حلف اٹھانے کے بعد بطور صدر اپنے افتتاحی خطاب میں گو کہ مجموعی طور پر امریکہ سے متعلق اپنی مختلف ترجیحات کا تذکرہ کیا لیکن انتہا پسندی کے خلاف ان کی طرف سے بھی امریکہ کے عزم کا اعادہ دیکھنے میں آیا۔

پاکستان میں مختلف حلقوں کی طرف سے صدر ٹرمپ کے خطاب کو قدرے مثبت قرار دیتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ دنیا کے ساتھ بہتر انداز میں اپنے تعلقات اور تعاون کو فروغ دینے کی کوشش کرے گی۔

حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے قانون ساز اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے رکن رانا محمد افضل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ امریکی صدر کی تقریر کو پاکستان کے تناظر میں دیکھتے ہوئے انھیں توقع ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے گی۔

"میری رائے میں وہ دنیا سے بگاڑ کم کریں گے اور اپنی معیشت پر توجہ دیں گے۔۔جہاں تک اسلامی انتہا پسندی کی بات ہے تو اس کے خلاف تو امریکہ پہلے سے سرگرم ہے بہت سے ممالک میں اس کی فوجیں ہیں، میرا خیال ہے کہ بدلتے حالات میں امریکہ اسی پالیسی کو لے کر چلے گا اور پاکستان کے تناظر میں بھی توقع رکھتا ہوں کہ ہمارے تعلقات بہتر ہوں گے۔"

صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ان کا ملک دوسرے ممالک پر اپنی مرضی مسلط نہیں کرے گا۔ ان کے بقول انتہا پسندی و دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پرانے اتحادیوں کو تقویت دینے کے ساتھ ساتھ نئے اتحادی بھی بنائے جائیں گے۔

پاکستان انسداد دہشت گردی کی بین الاقوامی جنگ میں امریکہ کا قریبی اتحادی ہونے کے ساتھ ساتھ ہراول دستے کا کردار ادا کر چکا ہے جب کہ وہ بین الاقوامی طور پر سب سے زیادہ امریکی امداد حاصل کرنے والے ملکوں میں بھی شامل ہے۔

لیکن گزشتہ برس دونوں ملکوں کے تعلقات نسبتاً سرد مہری کے شکار نظر آئے جس کی وجہ امداد کو مشروط کرنے اور اس میں کٹوتی کے علاوہ پاکستان کو جدید ایف 16 لڑاکا طیاروں کی فروخت کی مد میں زر اعانت دینے سے انکار تھا۔

تاہم ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد پاکستان متعدد بار یہ کہہ چکا ہے کہ خطے کی سلامتی و خوشحالی اور دہشت گردی کا خاتمہ دونوں ملکوں کا مشترکہ مفاد ہے اور پاکستان ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ قریبی تعلقات اور مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے۔

دفاعی امور کی تجزیہ کار ماریہ سلطان صدر ٹرمپ کے خطاب کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ اتحادیوں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف کام کرنے کی بات سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اس میں باہمی مشاورت اور بات چیت کا راستہ بھی کھلے گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے وہ موقف اختیار نہیں کیا جو سابق صدور بش یا اوباما کا تھا کہ امریکہ انتہا پسندوں انفرادی طور پر نبرد آزما ہوگا۔

"یہ خوش آئند بات ہے جب آپ دوسروں سے بات کریں گے اور اتحاد قائم کرنے کی کوشش کریں گے تو ظاہر ہے اس میں سمجھوتے بھی ہوں گے دوسرے کے نقطہ نظر بھی دیکھیں گے۔"

پاکستان کے پڑوس میں واقع افغانستان سے دو سال قبل بین الاقوامی لڑاکا افواج کے انخلا کے بعد سے جنگ سے تباہ حال ملک میں امن و امان کی صورتحال ابتری کا شکار ہے۔ یہ محدود تعداد میں بین الاقوامی فوجی جن میں اکثریت امریکی فوجیوں کی ہے، اب بھی افغانستان میں تعینات ہیں اور مقامی فورسز کی تربیت کے علاوہ انسداد دہشت گردی میں انھیں معاونت فراہم کرتے آ رہے ہیں۔

تاحال واضح نہیں کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کے مستقبل کے بارے میں صدر ٹرمپ کیا پالیسی اختیار کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG