امریکہ کے بحری بیڑے 'روزویلٹ' کے کپتان نے محکمۂ دفاع پینٹاگون کو لکھے گئے ایک خط میں تشویش کا اظہار کیا ہے کہ کرونا وائرس سے بیڑے پر موجود اہلکاروں کی زندگیوں کو خطرہ ہے اس لیے فوری طور پر مدد کی جائے۔
بحری بیڑے کے کپتان بریٹ کروزیئر نے چار صفحات پر مشتمل ایک خط میں پینٹاگون کو آگاہ کیا کہ بحرالکاہل کے ایک امریکی علاقے گوام میں ان کا بیڑا موجود ہے۔ کرونا وائرس بیڑے پر تیزی سے پھیل رہا ہے جس کے باعث چار ہزار اہلکاروں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق امریکی اخبار سان فرانسسکو کرونیکل نے منگل کو بحری بیڑے کے کپتان کی جانب سے پینٹاگون کو لکھا گیا خط بھی شائع کیا ہے۔
خط کے متن کے مطابق کپتان بریڈ کروزیئر نے کہا ہے کہ ہم حالتِ جنگ میں نہیں ہیں اور یہ وہ حالات نہیں جن میں سیلرز اپنی جانیں دیں۔
انہوں نے کہا کہ بحری بیڑے میں گنجائش کم ہے اور کرونا وائرس کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے اس لیے بیڑے پر موجود اہلکاروں کو قریبی ساحل پر قرنطینہ میں رکھا جائے۔
کپتان نے خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اہلکاروں کی بیڑے پر موجودگی بہت بڑا خطرہ ہے۔
امریکہ کے وزیرِ دفاع مارک ایسپر نے 'سی بی ایس ایوننگ نیوز' سے گفتگو کرتے ہوئے اس تاثر کی نفی کی کہ وہ بحری بیڑے سے سیلرز کو کسی دوسری جگہ منتقل کر رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ فی الحال وہ اس نتیجے پر نہیں پہنچے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طبی امداد اور دیگر ضروری اشیا روزویلٹ کے لیے روانہ کر دی گئی ہیں اور سیلرز کی دیکھ بھال کے لیے اضافی طبی عملہ بھی بھجوایا جا رہا ہے۔
مارک ایسپر کا کہنا تھا کہ بحری بیڑے پر موجود کسی بھی سیلر کی جان خطرے میں نہیں ہے۔ بحریہ وائرس پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس مقصد کے لیے ٹیسٹ کٹس بھجوا دی گئی ہیں۔
'کرونیکل' نے بحری بیڑے کے کپتان کے خط کی اشاعت کے ساتھ یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ روزویلٹ پر موجود 100 سے زائد سیلرز کرونا وائرس کے شکار ہو چکے ہیں۔ تاہم امریکی بحریہ نے خط کے متن کی تاحال تصدیق نہیں کی ہے۔
اس خط سے متعلق نیویارک ٹائمز بھی خبر شائع کر چکا ہے۔
بحریہ کے حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بحری بیڑے کے کپتان کروزیئر نے اپنے خط میں بیڑے پر مسائل اور خدشات سے خبردار کیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ نیوی کی قیادت بیڑے کے عملے کی صحت اور تحفظ کے لیے تمام ضروری اقدامات کر رہی ہے اور کمانڈر افسر نے جن تحفظات کا ذکر کیا ہے اسے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔