امریکہ اور اسرائیل کے درمیان دوستی کا رشتہ بڑا پرانا ہے لیکن 2010 کے دوران دونوں حکومتوں کے درمیان تعلقات کچھ کشیدہ ہوئے ۔ صدر براک اوباما نے اسرائیلی فلسطینی تنازعے کو طے کرنا اپنی خارجہ پالیسی کی اہم ترجیح قرار دیا ہے۔ اسرائیل میں بہت سے لوگوں کو یہ بات ناگوار گذری ہے کہ اوباما انتظامیہ یہودی ریاست پر فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کے لیئے دباؤ ڈال رہی ہے۔
اکتوبر میں تل ابیب میں امریکی سفارت خانے کے سامنے امریکہ مخالف مظاہروں کا منظر بڑا عجیب تھا کیوں امریکہ وہ ملک ہے جس کے بارے میں اسرائیل میں دوستی کے جذبات عام ہیں، بلکہ کچھ اسرائیلی تو مذاق میں اپنے ملک کو امریکہ کی 51 ویں ریاست کہتے ہیں۔ مظاہرین کے خیال میں اوباما انتظامیہ اسرائیلی مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کو روکنے کے لیئے جو دباؤ ڈال رہی ہے وہ غیر منصفانہ ہے ۔امریکی انتظامیہ اسرائیلی بستیوں کی توسیع اور مشرقی یروشلم میں نئی اسرائیلی تعمیرات کو امن کی کوششوں اور فلسطینیوں کی اپنی ریاست کے قیام کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہے ۔اسرائیل کا خیال ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں بستیاں، اس کی سیکورٹی کے لیئے ضروری ہیں۔
دونوں اتحادی ملکوں کے درمیان تعلقات میں رخنہ اس وقت پیدا ہوا جب مارچ میں امریکی نائب صدر جو بائڈن کے اسرائیل کےد ورے کے موقع پر، اسرائیلی عہدے داروں نے مشرقی یروشلم میں یہودیوں کے لیئے سینکڑوں نئے گھروں کی تعمیر کی منظوری کا اعلان کیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اقدام امریکی قیادت کے لیئے شرمندگی کا باعث تھا۔ تیل ابیب یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے، بائیڈن نے اسرائیلی اقدام کی مذمت کی لیکن امریکہ اور یہودی ریاست کے درمیان مضبوط تعلقات کا اعادہ کیا۔
پھر چند ہفتوں بعد تعلقات مزید خراب ہوئے جب وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو وہائٹ ہاؤس آئے اور اسرائیلی اخباروں کے مطابق صدر اوباما نے ان کا سرد مہری سے استقبال کیا۔
مئی میں غزہ کی پٹی کے نزدیک اسرائیلی کمانڈوز نے فلسطینیوں کے لیئے امداد لانے والے بحری بیڑے پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں 9 امدادی کارکن ہلاک ہو گئے۔ اس واقعے سے تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہوا اگرچہ صدر اوباما نے کھلے عام اسرائیل پر تنقید نہیں کی۔
جولائی میں تعلقات میں کچھ گرم جوشی آنا شروع ہوئی جب وہائٹ ہاؤس میں مسٹر اوباما اور مسٹر نیتن یاہو کے درمیان مسکراہٹوں کے ساتھ مصافحہ ہوا۔ مبصرین کے خیال میں اس ملاقات کا ماحول زیادہ مصالحانہ تھا۔ کچھ عرصے بعد امریکہ نے دو ستمبر کو واشنگٹن میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان براہِ راست مذاکرات کا اعلان کیا۔ لیکن یہ مذاکرات چار ہفتے کے اندر ہی تعطل کا شکار ہو گئے جب اسرائیل نے اسرائیلی بستیوں کی تعمیر پر دس مہینے کے لیئے لگائی گئی پابندی میں ، توسیع کرنے سے انکار کر دیا۔ امریکہ کی کوشش کے باوجود ، اسرائیل ، نئی بستیوں کی تعمیر روکنے پر آمادہ نہیں ہوا اور اب ایک بار پھر امن مذاکرات کو بالواسطہ طور پر شروع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یورم ایٹنگر واشنگٹن میں اسرائیلی سفارت خانے کے سابق عہدے دار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مسٹر نتن یاہوکی دائیں بازو کی حکومت اور اوباما انتظامیہ ایک دوسرے کو سمجھنے میں نا کام رہے ہیں۔ اوباما انتظامیہ کی تمامتر توجہ اسرائیلی فلسطینی تنازعے پر ہے جب کہ اسرائیل کو اصل تشویش ایران کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں ایسے بہت سے طوفان اٹھ رہے ہیں جن سے امریکی مفادات کو خطرہ ہے اور ان میں سے کسی کا بھی تعلق فلسطینی مسئلے سے نہیں ہے ۔ تو پھر اتنے چھوٹے سے مسئلے پر اتنی زیادہ توجہ دینے کی کیا ضرورت ہے جب کہ امریکہ کی سلامتی کے لیئے دوسرے کہیں زیادہ سنگین خطرات موجود ہیں؟
اسرائیلی اور امریکی لیڈروں کی طرح ایٹنگر کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلق نا قابلِ تنسیخ ہے۔ ان کے خیال میں، امریکہ کے انتخابات میں ریپبلیکنز کی فتح سے 2011 میں اسرائیل اور امریکہ کے تعلقات بہتر ہو جائیں گے کیوں کہ اسرائیل کا واسطہ ایک ایسے امریکی صدر سے ہوگا جو سیاسی طور پر کمزور ہو چکا ہے، اور ایسی کانگریس سے ہو گا جو بہت زیادہ امور میں اسرائیل سے متفق ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایوانِ نمائندگان میں جو تقریباً سو نئے ارکان آئے ہیں، وہ روایتی سوچ رکھنے والے لوگ ہیں، انہیں زیادہ فکر سیکورٹی کی ہے، وہ اقوام متحدہ کے بارے میں مخالفانہ جذبات رکھتے ہیں، وہ عرب اور مسلمان حکومتوں کو شک و شبہے اور دشمنی کی نظر سے دیکھتے ہیں، اور دہشت گردی کے انتہائی مخالف ہیں۔ ایسے حالات میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اسٹریٹجک تعاون کے امکانات روشن ہیں۔
یروشلم کے قدیم شہر کے یہودی علاقے میں، بہت سے اسرائیلی امریکہ پر تنقید کرنے میں محتاط ہیں۔ یہ خاتون کہتی ہیں کہ وہ جانتی ہیں کہ امریکہ ہر سال اسرائیل کو اربوں ڈالر کی فوجی اور دوسری امداد فراہم کرتا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان بنیادی طور پر بہت مضبوط تعلق قائم ہے ۔
وہ کہتی ہیں کہ اوباما کے بعد کوئی اور صدر آئے گا۔ اسرائیل نے بڑے مشکل وقت دیکھے ہیں، اور وہ اس امریکی انتظامیہ کو بھی برداشت کر لیں گے۔ ان کا خیال ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں بہتری 2011 کے بعد، 2012 میں آئے گی ، اگر امریکی ووٹرز یہ طے کرتے ہیں کہ مسٹر اوباما کو دوسری مدت کے لیئے صدر منتخب نہ کریں۔