گزشتہ ہفتے عراق میں امریکی فوج پر کیے گئے میزائل حملے کے جواب میں امریکہ نے جمعے کے روز ایران پر مزید تعزیرات عائد کر دی ہیں، جب کہ امریکہ نے اس بات کی دھمکی دی ہے کہ اگر ایران ’’دہشت گردی کی کارروائیوں‘‘ سے باز نہ آیا تو اس کی معیشت کو کمزور کرنے کا مزید اقدام کیا جائے گا۔
وائٹ ہاؤس میں ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، امریکی وزیر خزانہ، اسٹیو منوشن نے کہا کہ نئی پابندیوں میں ایران کے تعمیرات، پیداوار، کان کنی اور ٹیکسٹائل کی صنعتوں کو ہدف بنایا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ تعزیرات میں ایرانی اہل کاروں کو بھی ہدف بنایا گیا ہے، جن کے بارے میں امریکہ کا کہنا ہے وہ 8 جنوری کے میزائل حملوں میں ملوث تھے، جن میں عراق کے فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا جہاں امریکی فوجی تعینات ہیں۔
ایرانی حملے امریکہ کی جانب سے ایران کے اعلیٰ فوجی کمانڈر کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے کیے گئے تھے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ سمجھتی ہے کہ ان نئی تعزیرات کے نتیجے میں ایران نئے جوہری سمجھوتے پر مذاکرات کے لیے مجبور ہو جائے گا، جس سے ایران کی جانب سے میزائل تشکیل دینے کے پروگرام کی سطح میں کمی آئے گی اور مشرق وسطیٰ میں ملیشیاؤں کی حمایت میں کمی ہو گی۔
منوشن نے یہ اعلان امریکی وزیر خارجہ، مائیک پومپیو کے ہمراہ اخباری کانفرنس میں کیا۔ پومپیو نے کہا کہ ’’ہم چاہتے ہیں کہ ایران ایک عام ملک کا انداز اپنائے‘‘۔
پومپیو نے کہا کہ ایران کی اعلیٰ قومی سیکیورٹی کونسل کے سیکرٹری اور ایران کی فوج کے معاون چیف آف اسٹاف اُن سینئر اہل کاروں میں شامل ہیں جنہیں تعزیرات میں ہدف بنایا گیا ہے۔
پومپیو نے کہا کہ ’’ہم ایران کی سیکیورٹی کی داخلی تنظیم کے محور کو نشانہ بنا رہے ہیں‘‘۔
ٹرمپ نے جمعرات کے روز کہا تھا کہ امریکہ نے ڈرون کارروائی میں قاسم سلیمانی کو نشانہ بنایا تھا کیونکہ وہ بغداد میں امریکی سفارت خانے کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔