رسائی کے لنکس

'دنیا کسی بڑی جنگ کی طرف نہیں بڑھ رہی'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

عراق میں امریکی فضائی کارروائی میں ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کے ہلاکت اور اس کے بعد ایران کی جانب سے عراق میں امریکی ایئر بیس پر میزائل حملے سے دونوں ممالک میں شدید کشیدگی موجود ہے۔ اس کشیدگی کے معاشی، سیاسی و سفارتی اثرات کسی ملک پر کیا مرتب ہوں گے اس بات کا انحصار اس ملک کی معیشت کے ساتھ ساتھ جغرافیائیائی حدود پر بھی ہے۔

پاکستان کی سرحد جہاں ایران کے ساتھ ملتی ہے وہیں اس کے امریکہ کے ساتھ بھی سات دہائیوں پر مشتمل تعلقات ہیں. اس صورت حال پر پاکستان کے سابق سفیر شاہد کیانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ، ایران سمیت خلیج کی دیگر ریاستوں میں کسی بھی قسم کا تناؤ یا کشیدگی پیدا ہوتی ہے تو اس کا اثر پاکستان پر ضرور پڑتا ہے۔

ان کے بقول اس کی ایک وجہ جہاں ان ممالک کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ تعلقات ہیں۔ وہیں اس کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ مشرق وسطیٰ کی ریاستیں پاکستانیوں کو ملازمت کے مواقع بھی فراہم کرتی ہیں۔

شاہد کیانی کے مطابق یہی وجہ ہے کہ پاکستان ان علاقوں میں پیدا ہونے والی کسی بھی کشیدگی کو بہت سنجیدگی سے دیکھتا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان سے متصل کسی سرحد پر کشیدگی دیکھی جا رہی ہو۔ 80 کی دہائی میں جب کہ پاکستان میں جنرل ضیا الحق کی حکومت تھی ایران۔عراق جنگ میں پاکستان نے سعودی عرب کی حفاظت کے لیے فوجی دستے ضرور روانہ کیے لیکن سیاسی مبصرین کے مطابق ایران کی مخالفت کا عنصر سامنے نہیں آیا۔

اسی طرح 90 کی دہائی میں ہونے والی عراق۔کویت جنگ میں امریکہ اور سعودی عرب کا اتحادی ہونے کے ناطے، اس معاملے پر پائی جانے والی متفرق آرا کے باوجود پاکستان نے عراق کا ساتھ نہیں دیا اور کویت کی حمایت کی۔

’دی گلف کرائسسز اینڈ ساوتھ اشیا۔اسٹڈی ان دی اکنامک ایمپیکٹ ‘ میں دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق اس جنگ کے نتیجے میں 60ہزار سے زائد افراد کو اپنی ملازمتیں اور کاروبار چھوڑ کر پاکستان واپس آنا پڑا تھا۔ جس سے معیشت پر منفی اثرات ڈالے۔

دوسری طرف افغان۔سویت جنگ کے نتیجے میں لاکھوں پناہ گزین پاکستان آئے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس ہجرت کے پاکستان پر دور رس اور منفی نتائج مرتب ہوئے۔

’معاشی اشاریے بتاتے ہیں کہ امریکہ، ایران جنگ کا خطرہ نہیں‘
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:44 0:00

ماہر معیشت فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ جب بھی کہیں سیاسی کشیدگی یا جنگ کی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو کئی معاشی اعشاریے اس جنگ کی سنگینی کا پتا دیتے ہیں۔

ان کہنا ہے کہ سب سے پہلے تو تیل کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ سونے کی قیمت بھی بڑھنے لگتی ہے جب کہ بازار میں مندی نظر آتی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ اس سب میں سے کوئی بھی اعشاریہ اب تک خطرے کی حد تک نہیں پہنچا۔ 60 ڈالر بیرل ملنے والا تیل اگر 63 یا 64 ڈالرز پر چلا جاتا ہے تو یہ اتنی پریشانی کا سبب نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اب تک کے اعداد و شمار یہی بتاتے ہیں کہ دنیا کسی بڑی جنگ کی طرف نہیں بڑھ رہی۔

اسی بات کی تائید کرتے ہوئے سابق سفیر شاہد کیانی کہتے ہیں کہ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کی گفتگو سے بھی یہی تاثر ابھر رہا ہے کہ معاملہ شاید عراق میں واقع امریکی ائر بیس پر جوابی حملے سے اختتام کو پہنچا چکا ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی حالات میں بہتری لانے کی طرف اشارہ دے چکے ہیں۔

شاہد کیانی کا کہنا تھا کہ ایسی صورت حال میں پاکستان کی یہی کوشش ہو سکتی ہے کہ معاملات اتنے خراب نہ ہوں کہ ارد گرد سرحدیں غیر محفوظ ہو جائیں اور مشرق وسطیٰ میں لگنے والی آگ خطے کے دوسرے ممالک کو بھی لپیٹ میں لے۔

انہوں نے 70 کہ دہائی میں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تمام اسلامی ممالک کے سربراہان کو لاہور مدعو کرنے کا مقصد کسی خاص ملک کے خلاف محاذ بنانا نہیں تھا بلکہ پاکستان کی کوشش تھی کہ اسلامی ممالک آپس میں افہام و تفہیم کی فضا پیدا کر سکیں۔

سیاسی مبصرین یہی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے لیے غیر جانبدارانہ پوزیشن پر قائم رہنا سب سے اہم ہے۔

فرخ سلیم کے بقول معیشت کی کمزوری پاکستان کو کوئی خاص موقف اختیار کرنے پر مجبور بھی کر سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے پچھلے ڈیڑھ سال میں تجارتی خسارہ کم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ جس میں تیل کی درآمد کا اہم ہاتھ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کسی بھی صورت میں تیل کی قیمت تیزی سے اوپر جاتی ہےتو پاکستان کے لیے یہ ایک بحران کی وجہ ہو سکتی ہے۔

فرخ سلیم کے مطابق معاشی ابتری کو دیکھتے ہوئے بھی پاکستان کو کچھ ایسا موقف اختیار کرنا پڑ سکتا ہے جو شاید سیاسی طور پر سود مند نہ ہو۔

’مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کا اثر پاکستان پر پڑتا ہے‘
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:10 0:00

دوسری طرف شاہد کیانی کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ نوبت ہی نہ آئے کہ پاکستان کو کسی بھی ایک ملک کا بطور اتحادی انتخاب کرنا پڑے۔

ان کے بقول ایران یہ کہہ چکا ہے کہ وہ جنرل سلیمانی کی ہلاکت کا بدلا لے چکے ہیں اور امریکہ کی طرف سے مزید کوئی کارروائی نہ ہوئی تو ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کی اقوام متحدہ کے اجلاس میں ممکنہ شرکت سے بہتری کا پہلو نکل سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس بات کا کئی بار اعلان بھی کر چکے ہیں کہ پاکستان اس کشیدگی میں فریق نہیں بننا چاہتا البتہ حالات میں بہتری کا خواہاں ہے۔

فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ ایران اور امریکہ کی صورت حال کو سمجھنے کے لیے امریکہ کے اپنے سیاسی حالات کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے۔

ان کے بقول اس بات کو بھی مدِ نظر رکھنا چاہیے کہ امریکہ میں صدراتی انتخابات کی دوڑ شروع ہونے والی ہے اور ایسے ہی وقت میں جنرل سلیمانی کی ہلاکت ہونا، اگر اتفاق ہے تو باعثِ حیرت ہے۔

  • 16x9 Image

    گیتی آرا

    گیتی آرا ملٹی میڈیا صحافی ہیں اور وائس آف امریکہ اردو کے لئے اسلام آباد سے نیوز اور فیچر سٹوریز تحریر اور پروڈیوس کرتی ہیں۔

XS
SM
MD
LG