امریکہ کے ایوانِ نمائندگان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جنگ کے اختیارات محدود کرنے کی قرار داد منظور کر لی ہے۔
جمعرات کو ایوان نمائندگان کے اجلاس کے دوران امریکہ اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کے باعث پیدا ہونے والی صورت حال کے پیش نظر ایوان میں ایک قرارداد پیش کی گئی جس کے تحت صدر کے جنگ کے اختیارات میں کمی لانا تھا۔
حزب اختلاف کی جماعت ڈیموکریٹس پارٹی کے اکثریتی ایوان نے یہ قرارداد 194 ووٹوں کے مقابلے میں 224 ووٹوں سے منظور کر لی۔ قرارداد کے خلاف تقریباً سب ہی ری پبلکن ارکان نے ووٹ دیا۔
صدر ٹرمپ کے جنگ کے اختیارات میں کمی کا معاملہ اب سینیٹ میں جائے گا جہاں حکمراں جماعت ری پبلکن پارٹی کی اکثریت ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹس کا جنگ کے صدارتی اختیارات کے حوالے سے اٹھایا گیا اقدام مضحکہ خیز اور سیاسی ہے۔
ترجمان کا مزید کہنا ہے کہ ایران مسلسل امریکی شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور ایوانِ نمائندگان کا اقدام امریکی شہریوں کی حفاظت کے لیے امریکی صلاحیت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
ایوان نمائندگان نے یہ قرارداد صدر ٹرمپ کے اس بیان کے چند گھنٹے بعد ہی منظور کی جس میں اُن کا کہنا تھا کہ ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو گزشتہ ہفتے عراق میں ایک ڈرون حملے میں اس لیے ہلاک کیا گیا کیوں کہ وہ امریکی سفارت خانے کو تباہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
یاد رہے کہ تین جنوری کو امریکی کارروائی میں جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد پینٹاگون نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ صدر ٹرمپ کی ہدایت پر قاسم سلیمانی کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔
ہاؤس اسپیکر نینسی پلوسی نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ صدر ٹرمپ اپنی پالیسیوں کے تحت امریکیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ صدر ٹرمپ کے جنگ کے اختیارات میں کمی کے لیے ایوان میں قرار داد لائی جائے گی۔
جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں ایران نے آٹھ جنوری کو عراق میں امریکہ کے دو فوجی اڈوں کو ایک درجن سے زائد بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا تھا۔
ایران کی کارروائی میں امریکہ یا اتحادی فورسز کو کسی جانی نقصان کا سامنا تو نہیں کرنا پڑا تھا۔ البتہ ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے اس کارروائی کے بعد کہا تھا کہ تہران نے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لے لیا ہے اور ہم مزید کشیدگی نہیں چاہتے۔