اسلام آباد —
امریکہ نے سلامتی کے خدشات کے باعث افغانستان سے اپنے عسکری ساز و سامان کی پاکستان کے زمینی راستے سے ترسیل معطل کرتے ہوئے، متعلقہ کمپنیوں کے ڈرائیوروں سے کہا ہے کہ وہ اپنی گاڑیاں افغانستان میں ہی کھڑی کر دیں۔
پینٹا گون کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے کہ یہ ترسیل جلد دوبارہ شروع ہو جائے گی۔
پاکستان کے راستے افغانستان سے واپس بھیجے جانے والے سامان میں فوجی یونٹوں کے آلات اور دیگر عسکری سامان شامل ہے۔
اس فیصلے کی بظاہر وجہ پاکستان میں حالیہ دنوں میں مشتبہ امریکی ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج میں شدت ہے۔
افغانستان اور پاکستان کے درمیان ایک اہم زمینی راستہ صوبہ خیبرپختونخواہ سے گزرتا ہے جہاں حکمران جماعت تحریک انصاف کے کارکن ڈرون حملوں کے خلاف احتجاجاً نیٹو کے لیے سامان رسد لے جانے والے ٹرکوں کو روکنے کے لیے 11 روز سے دھرنا دیتے آ رہے ہیں۔
دفاعی اور بین الاقوامی اُمور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کے راستے رسد کی ترسیل کو روکنے سے واشنگٹن اور اسلام آباد کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہو سکتا ہے۔
تجزیہ کار شہزاد چودھری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگر احتجاج جاری رہتا ہے تو امریکہ سامان کی واپسی کے لیے متبادل راستوں کے بارے میں بھی سوچ سکتا ہے۔
’’ضرورت کے حساب سے رشتے ہوتے ہیں، اگر آپ کی ضرورت نہیں رہے گی تو رشتہ کمزور ہو جاتا ہے ... اگر وہ (امریکہ اور نیٹو) پاکستان کا راستہ استعمال نہیں کرنا چاہتے تو کسی اور راستے سے اپنا سامان واپس لے جائیں گے۔‘‘
دفاعی مبصر و ماہر ماریہ سلطان کہتی ہیں کہ نیٹو افواج اگر کسی وجہ سے اپنا سامان افغانستان سے منتقل نا کر سکیں تو یہ بھی خطے کے لیے ایک اور بڑا مسئلہ بن سکتا ہے کیوں کہ ایسی صورت میں عسکری سامان شدت پسندوں کے ہاتھ لگنے کا بھی خدشہ ہے۔
’’اگر (افغانستان میں) سامان رہ جاتا ہے اور اس کی سکیورٹی کا بندوبست نہیں ہوتا تو پھر یہ ایک بڑا مسئلہ ہو گا، کیوں کہ (ساز و سامان) ادھر اُدھر ہو سکتا ہے۔‘‘
افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج نے 2014ء کے اواخر تک انخلاء کا اعلان کر رکھا ہے اور اُن کا بیشتر عسکری سامان پاکستان کے زمینی راستے ہی سے منتقل کیا جا رہا ہے۔
نیٹو افواج کے انخلاء اور اُن کے فوجی ساز و سامان کی واپسی میں پاکستان کے کردار کو انتہائی کلیدی تصور کیا جاتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کے علاوہ بعض دیگر سیاسی جماعتوں کا بھی موقف ہے کہ نیٹو افواج کی رسد کو روکنے کے لیے تحریک انصاف اور اس کی حلیف جماعتوں نے احتجاج کا جو راستہ اختیار کیا ہے وہ درست اقدام نہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کہہ چکے ہیں کہ پاکستان ڈرون حملوں کی بندش کے لیے سفارتی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
پینٹا گون کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے کہ یہ ترسیل جلد دوبارہ شروع ہو جائے گی۔
پاکستان کے راستے افغانستان سے واپس بھیجے جانے والے سامان میں فوجی یونٹوں کے آلات اور دیگر عسکری سامان شامل ہے۔
اس فیصلے کی بظاہر وجہ پاکستان میں حالیہ دنوں میں مشتبہ امریکی ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج میں شدت ہے۔
افغانستان اور پاکستان کے درمیان ایک اہم زمینی راستہ صوبہ خیبرپختونخواہ سے گزرتا ہے جہاں حکمران جماعت تحریک انصاف کے کارکن ڈرون حملوں کے خلاف احتجاجاً نیٹو کے لیے سامان رسد لے جانے والے ٹرکوں کو روکنے کے لیے 11 روز سے دھرنا دیتے آ رہے ہیں۔
دفاعی اور بین الاقوامی اُمور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کے راستے رسد کی ترسیل کو روکنے سے واشنگٹن اور اسلام آباد کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہو سکتا ہے۔
تجزیہ کار شہزاد چودھری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگر احتجاج جاری رہتا ہے تو امریکہ سامان کی واپسی کے لیے متبادل راستوں کے بارے میں بھی سوچ سکتا ہے۔
’’ضرورت کے حساب سے رشتے ہوتے ہیں، اگر آپ کی ضرورت نہیں رہے گی تو رشتہ کمزور ہو جاتا ہے ... اگر وہ (امریکہ اور نیٹو) پاکستان کا راستہ استعمال نہیں کرنا چاہتے تو کسی اور راستے سے اپنا سامان واپس لے جائیں گے۔‘‘
دفاعی مبصر و ماہر ماریہ سلطان کہتی ہیں کہ نیٹو افواج اگر کسی وجہ سے اپنا سامان افغانستان سے منتقل نا کر سکیں تو یہ بھی خطے کے لیے ایک اور بڑا مسئلہ بن سکتا ہے کیوں کہ ایسی صورت میں عسکری سامان شدت پسندوں کے ہاتھ لگنے کا بھی خدشہ ہے۔
’’اگر (افغانستان میں) سامان رہ جاتا ہے اور اس کی سکیورٹی کا بندوبست نہیں ہوتا تو پھر یہ ایک بڑا مسئلہ ہو گا، کیوں کہ (ساز و سامان) ادھر اُدھر ہو سکتا ہے۔‘‘
افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج نے 2014ء کے اواخر تک انخلاء کا اعلان کر رکھا ہے اور اُن کا بیشتر عسکری سامان پاکستان کے زمینی راستے ہی سے منتقل کیا جا رہا ہے۔
نیٹو افواج کے انخلاء اور اُن کے فوجی ساز و سامان کی واپسی میں پاکستان کے کردار کو انتہائی کلیدی تصور کیا جاتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کے علاوہ بعض دیگر سیاسی جماعتوں کا بھی موقف ہے کہ نیٹو افواج کی رسد کو روکنے کے لیے تحریک انصاف اور اس کی حلیف جماعتوں نے احتجاج کا جو راستہ اختیار کیا ہے وہ درست اقدام نہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کہہ چکے ہیں کہ پاکستان ڈرون حملوں کی بندش کے لیے سفارتی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔