واشنگٹن —
افغانستان میں تعینات غیر ملکی افواج کے امریکی سربراہ نے کہا ہے کہ وہ موسمِ گرما کے اختتام پر اس بات کا تعین کریں گے کہ افغانستان میں کتنے فوجی دستوں کی مزید موجودگی ضروری ہے۔
جنرل جوزف ڈنفورڈ کا کہنا ہے کہ وہ رواں موسمِ گرما میں شدت پسندوں کےخلاف افغان فورسز کی کارکردگی دیکھنے کے بعد افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد میں ممکنہ کمی سے متعلق اپنی سفارشات نومبر 2013ء میں اوباما انتظامیہ کو بھیجیں گے۔
جنرل ڈنفورڈ نے منگل کو واشنگٹن میں امریکی سینیٹ کی 'آرمڈ سروسز کمیٹی' کے سامنے بیانِ حلفی دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں دشمن کی قوت اور صلاحیت اور وہاں سیاسی ذمہ داریوں کی منتقلی کی رفتار جیسے عوامل بھی فوجیوں کی تعداد سے متعلق ان کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گے۔
امریکی جنرل نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ امریکہ افغانستان میں 2014ء کے بعد بھی اپنے فوجیوں کی موجودگی کی یقین دہانی اس وقت تک نہیں کراسکتا جب تک اس بارے میں دونوں ممالک کے درمیان کوئی سمجھوتہ طے نہیں پاجاتا۔
خیال رہے کہ امریکہ اور افغانستان کے درمیان کئی ماہ سے ایسے کسی معاہدے پر اتفاقِ رائے کے لیے مذاکرات جاری ہیں جن کے نتیجے میں 2014ء میں افغانستان سے غیر ملکی فوجی انخلا کے بعد دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعاون جاری رکھا جاسکے۔
امریکی قانون ساز فوجی جنرلوں پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ اس بارے میں اپنی سفارشات منظرِ عام پر لائیں کہ ان کی رائے میں 2014ء کے بعد افغانستان میں کتنے امریکی فوجیوں کو تعینات رکھنا چاہیے۔
صدر اوباما 2014ء کی ڈیڈلائن تک افغانستان سے اپنے بیشتر فوجی دستے واپس بلانے کا وعدہ کرچکے ہیں لیکن ساتھ ہی امریکی حکام کو یہ فکر بھی کھائے جارہی ہے کہ آیا غیر ملکی فوجی دستوں کے انخلا کے بعد افغان فورسز ملک میں امن و امان کی صورتِ حال برقرار رکھ پائیں گی۔
امریکی حکام یہ عندیہ دیتے آئے ہیں کہ وہ 2014ء کے بعد بھی اپنے اتنے فوجی افغانستان میں تعینات رکھنا چاہیں گے جو افغان فورسز کی تربیت کے علاوہ القاعدہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف کاروائیوں میں انہیں ضروری مدد فراہم کرنے کے لیے کافی ہوسکیں۔
امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جیمز میٹس نے گزشتہ ماہ اپنے ایک بیان میں کہا تھاکہ انہوں نے 2013ء کے بعد افغانستان میں 13 ہزار 600 امریکی فوجیوں کو تعینات رکھنے کی تجویز دی ہے۔
لیکن منگل کو سینیٹ میں سماعت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کے دوران میں جنرل ڈنفورڈ نے کہا کہ وہ اس مجوزہ تعداد پر کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتے۔
جنرل جوزف ڈنفورڈ کا کہنا ہے کہ وہ رواں موسمِ گرما میں شدت پسندوں کےخلاف افغان فورسز کی کارکردگی دیکھنے کے بعد افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد میں ممکنہ کمی سے متعلق اپنی سفارشات نومبر 2013ء میں اوباما انتظامیہ کو بھیجیں گے۔
جنرل ڈنفورڈ نے منگل کو واشنگٹن میں امریکی سینیٹ کی 'آرمڈ سروسز کمیٹی' کے سامنے بیانِ حلفی دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں دشمن کی قوت اور صلاحیت اور وہاں سیاسی ذمہ داریوں کی منتقلی کی رفتار جیسے عوامل بھی فوجیوں کی تعداد سے متعلق ان کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گے۔
امریکی جنرل نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ امریکہ افغانستان میں 2014ء کے بعد بھی اپنے فوجیوں کی موجودگی کی یقین دہانی اس وقت تک نہیں کراسکتا جب تک اس بارے میں دونوں ممالک کے درمیان کوئی سمجھوتہ طے نہیں پاجاتا۔
خیال رہے کہ امریکہ اور افغانستان کے درمیان کئی ماہ سے ایسے کسی معاہدے پر اتفاقِ رائے کے لیے مذاکرات جاری ہیں جن کے نتیجے میں 2014ء میں افغانستان سے غیر ملکی فوجی انخلا کے بعد دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعاون جاری رکھا جاسکے۔
امریکی قانون ساز فوجی جنرلوں پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ اس بارے میں اپنی سفارشات منظرِ عام پر لائیں کہ ان کی رائے میں 2014ء کے بعد افغانستان میں کتنے امریکی فوجیوں کو تعینات رکھنا چاہیے۔
صدر اوباما 2014ء کی ڈیڈلائن تک افغانستان سے اپنے بیشتر فوجی دستے واپس بلانے کا وعدہ کرچکے ہیں لیکن ساتھ ہی امریکی حکام کو یہ فکر بھی کھائے جارہی ہے کہ آیا غیر ملکی فوجی دستوں کے انخلا کے بعد افغان فورسز ملک میں امن و امان کی صورتِ حال برقرار رکھ پائیں گی۔
امریکی حکام یہ عندیہ دیتے آئے ہیں کہ وہ 2014ء کے بعد بھی اپنے اتنے فوجی افغانستان میں تعینات رکھنا چاہیں گے جو افغان فورسز کی تربیت کے علاوہ القاعدہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف کاروائیوں میں انہیں ضروری مدد فراہم کرنے کے لیے کافی ہوسکیں۔
امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جیمز میٹس نے گزشتہ ماہ اپنے ایک بیان میں کہا تھاکہ انہوں نے 2013ء کے بعد افغانستان میں 13 ہزار 600 امریکی فوجیوں کو تعینات رکھنے کی تجویز دی ہے۔
لیکن منگل کو سینیٹ میں سماعت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کے دوران میں جنرل ڈنفورڈ نے کہا کہ وہ اس مجوزہ تعداد پر کوئی تبصرہ کرنا نہیں چاہتے۔