واشنگٹن —
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی شخص نے کوئی ایسی فلم بنائی ہو جس سے دنیا کے کئی ممالک میں تشدد کی لہر دوڑ گئی ہو۔ کہا جا سکتا ہے کہ فلم بنانے والے کو اندازہ ہوگا کہ اس فلم کا ممکنہ نتیجہ کیا نکل سکتا ہے۔ اس کے باوجود ایسا کام کرنے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟
ماہر نفسیات ڈاکٹر رونا فیلڈز کے مطابق ایسے کام کرنے والے لوگ دراصل صرف توجہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ رویّہ اکثر دس سے بارہ سال کے کم سن بچوں میں نظر آتا ہے۔ جب بچّوں کو لگتا ہے کہ ان کی کوئی اہمیت نہیں اور انہیں کوئی توجہ نہیں مل رہی تو وہ اپنے گردونواح میں سب سے بڑے بچّے کے ساتھ لڑائی مول لے لیتے ہیں اور اس طرح اپنے ذہن میں اپنی اہمیت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگرچہ عمر کے ساتھ یہ رویّہ تبدیل ہوجاتا ہے لیکن ڈاکٹر فیلڈز کے مطابق بعض لوگوں کی اخلاقی قدریں بارہ سالہ بچّوں جیسی رہتی ہیں ۔
نفسیات پر چھ کتابوں کی مصنّف ڈاکٹر فیلڈز کے مطابق ایسے اقدامات اور رویّوں سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انہیں نظر انداز کیا جائے اور کوئی اہمیت نہ دی جائے۔ اس طرح ایسا رویّہ رکھنے والے لوگ وہ توجّہ حاصل کرنے میں ناکام رہیں گے جس کے وہ خواہش مند ہیں۔
دوسری طرف ان لوگوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے جو ایسے واقعات کے رد عمل میں تشدد کا سہارا لیتے ہیں ڈاکٹر فیلڈز کا کہنا تھا کہ ان میں سے بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو معاشی یا سماجی طور پر خود کو مجبور یا کم اہم سمجھتے ہیں۔ اور انہیں لگتا ہے کہ ان کے پاس تشدد کےسوا چارہ نہیں۔ لیکن انہیں احساس نہیں ہوتا کہ وہ کسی اور نہیں بلکہ خود کو اور اپنے معاشرے کو زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔
ایسے میں ڈاکٹر فیلڈز کے مطابق یہ سیاسی رہنماؤں کی ذمّہ داری ہے کہ وہ حالات سے تحمّل کے ساتھ نمٹیں لیکن بعض ممالک میں لیڈر رہنمائی کرنے کے بجائے خود مجمعے کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ جبکہ بعض جگہ خود لیڈر ایسے حالات کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر رونا فیلڈز کے مطابق ایسے کام کرنے والے لوگ دراصل صرف توجہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ رویّہ اکثر دس سے بارہ سال کے کم سن بچوں میں نظر آتا ہے۔ جب بچّوں کو لگتا ہے کہ ان کی کوئی اہمیت نہیں اور انہیں کوئی توجہ نہیں مل رہی تو وہ اپنے گردونواح میں سب سے بڑے بچّے کے ساتھ لڑائی مول لے لیتے ہیں اور اس طرح اپنے ذہن میں اپنی اہمیت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگرچہ عمر کے ساتھ یہ رویّہ تبدیل ہوجاتا ہے لیکن ڈاکٹر فیلڈز کے مطابق بعض لوگوں کی اخلاقی قدریں بارہ سالہ بچّوں جیسی رہتی ہیں ۔
نفسیات پر چھ کتابوں کی مصنّف ڈاکٹر فیلڈز کے مطابق ایسے اقدامات اور رویّوں سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انہیں نظر انداز کیا جائے اور کوئی اہمیت نہ دی جائے۔ اس طرح ایسا رویّہ رکھنے والے لوگ وہ توجّہ حاصل کرنے میں ناکام رہیں گے جس کے وہ خواہش مند ہیں۔
دوسری طرف ان لوگوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے جو ایسے واقعات کے رد عمل میں تشدد کا سہارا لیتے ہیں ڈاکٹر فیلڈز کا کہنا تھا کہ ان میں سے بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو معاشی یا سماجی طور پر خود کو مجبور یا کم اہم سمجھتے ہیں۔ اور انہیں لگتا ہے کہ ان کے پاس تشدد کےسوا چارہ نہیں۔ لیکن انہیں احساس نہیں ہوتا کہ وہ کسی اور نہیں بلکہ خود کو اور اپنے معاشرے کو زیادہ نقصان پہنچا رہے ہیں۔
ایسے میں ڈاکٹر فیلڈز کے مطابق یہ سیاسی رہنماؤں کی ذمّہ داری ہے کہ وہ حالات سے تحمّل کے ساتھ نمٹیں لیکن بعض ممالک میں لیڈر رہنمائی کرنے کے بجائے خود مجمعے کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ جبکہ بعض جگہ خود لیڈر ایسے حالات کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔