اسلام آباد —
پاکستان کے ایوان زیریں نے پیغمبر اسلام کے بارے میں بننے والی ’تضحیک آمیز‘ فلم کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس کے خلاف متفقہ قرارداد منظور کی ہے۔
وفاقی وزیر قانون فاروق نائیک نے قراردار ایوان میں پیش کی جس میں کہا گیا کہ گیارہ ستمبر کو امریکہ پر ہونے والے سفاکانہ دہشت گرد حملوں کی برسی کے موقع پر پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخانہ وڈیو کلپ نشر کیے جانے سے مختلف عقائد کے لوگوں اور معاشروں کے درمیان نفرت نے جنم لیا ہے۔
قرارداد میں کہا گیا کہ اس واقعے نے پاکستانی عوام اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات کو سخت ٹھیس پہنچائی ہے۔
’’پاکستان بین المذاہب ہم آہنگی کا محرک ہے اور کسی بھی طرح کے انتہا پسندانہ رجحانات کے اظہار کی مخالفت پر یقین رکھتا ہے۔‘‘
متنازع فلم کیلی فورنیا میں رہنے والا ایک اسرائیلی فلم ساز تیار کر رہا ہے جِس میں پیغمبر اسلام کا تمسخر اڑایا گیا۔ اس فلم کے بعض حصّوں کو عربی زبان میں ڈب کرکے یُوٹیوب پر ڈال دیا گیا تھا۔
وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے جمعرات کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ انھوں نے متعلقہ حکام کا ہدایت کر دی تھی کہ اس متنازع فلم کے لنک کو بند کر دیا جائے اور اب یہ یو ٹیوب پر پاکستان میں نہیں دیکھی جا سکتی۔
’’کوئی بھی ایسی چیز جو ہمارے اسلام کے اقدار کے منافی ہے ہم اس کو انٹرنیٹ پر نہیں آنے دیتے۔ تو ہم نے بلاک کیا ہوا ہے اور میں عوام کو بتا دوں کہ یہ ہمارے یو ٹیوب پر نہیں ہے اور اگر کوئی کوشش بھی کرے گا کہ تو ہم اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اس کو بند کیا جائے گا۔‘‘
اُدھر اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل بنیا امین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں امریکی سفارتی دفاتر کی سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔
’’ہم نے بہتر انتظامات کر رکھے ہیں اور اس کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گئے ہیں‘‘۔
اس سے قبل پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان نے ایک بیان میں متنازع فلم کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ میں گیارہ ستمبر 2001ء کے سفاکانہ واقعات کی برسی پر ایسے’’مکروہ افعال‘‘معاشروں کے اندر اور مختلف عقائد کے ماننے والوں کے مابین نفرت، ہم آہنگی کے فقدان اور دشمنی کو ہوا دیتے ہیں۔
’’اس عمل نے پاکستانی عوام اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے جذبات کو بُری طرح مجروح کیا ہے۔ پاکستان بین المذاہب ہم آہنگی کا زبردست حامی اورانتہا پسندانہ رجحانات کے پرچار کی بہر صورت مخالفت کرنے پر یقین رکھتا ہے۔‘‘
ایک الگ بیان میں پاکستانی وزارت خارجہ نے اس متنازع فلم کے خلاف لیبیا میں پُرتشدد مظاہروں کے دوران مشتعل ہجوم کے حملے میں امریکی سفیر سمیت چار سفارتی اہلکاروں کی ہلاکت کی بھی سخت مذمت کی ہے۔
یہ ہلاکتیں ملک کے دوسرے بڑے شہر بن غازی میں امریکی قونصلیٹ پر حملے کے دوران ہوئیں۔
مصر میں بھی اس فلم کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں اور منگل کو مظاہرین نے قاہرہ میں امریکی سفارت خانے پر چڑھائی بھی کردی تھی، تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ملک میں بدھ کو بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔
وفاقی وزیر قانون فاروق نائیک نے قراردار ایوان میں پیش کی جس میں کہا گیا کہ گیارہ ستمبر کو امریکہ پر ہونے والے سفاکانہ دہشت گرد حملوں کی برسی کے موقع پر پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخانہ وڈیو کلپ نشر کیے جانے سے مختلف عقائد کے لوگوں اور معاشروں کے درمیان نفرت نے جنم لیا ہے۔
قرارداد میں کہا گیا کہ اس واقعے نے پاکستانی عوام اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات کو سخت ٹھیس پہنچائی ہے۔
’’پاکستان بین المذاہب ہم آہنگی کا محرک ہے اور کسی بھی طرح کے انتہا پسندانہ رجحانات کے اظہار کی مخالفت پر یقین رکھتا ہے۔‘‘
متنازع فلم کیلی فورنیا میں رہنے والا ایک اسرائیلی فلم ساز تیار کر رہا ہے جِس میں پیغمبر اسلام کا تمسخر اڑایا گیا۔ اس فلم کے بعض حصّوں کو عربی زبان میں ڈب کرکے یُوٹیوب پر ڈال دیا گیا تھا۔
وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے جمعرات کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ انھوں نے متعلقہ حکام کا ہدایت کر دی تھی کہ اس متنازع فلم کے لنک کو بند کر دیا جائے اور اب یہ یو ٹیوب پر پاکستان میں نہیں دیکھی جا سکتی۔
’’کوئی بھی ایسی چیز جو ہمارے اسلام کے اقدار کے منافی ہے ہم اس کو انٹرنیٹ پر نہیں آنے دیتے۔ تو ہم نے بلاک کیا ہوا ہے اور میں عوام کو بتا دوں کہ یہ ہمارے یو ٹیوب پر نہیں ہے اور اگر کوئی کوشش بھی کرے گا کہ تو ہم اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اس کو بند کیا جائے گا۔‘‘
اُدھر اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل بنیا امین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں امریکی سفارتی دفاتر کی سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔
’’ہم نے بہتر انتظامات کر رکھے ہیں اور اس کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گئے ہیں‘‘۔
اس سے قبل پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان معظم احمد خان نے ایک بیان میں متنازع فلم کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ میں گیارہ ستمبر 2001ء کے سفاکانہ واقعات کی برسی پر ایسے’’مکروہ افعال‘‘معاشروں کے اندر اور مختلف عقائد کے ماننے والوں کے مابین نفرت، ہم آہنگی کے فقدان اور دشمنی کو ہوا دیتے ہیں۔
’’اس عمل نے پاکستانی عوام اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے جذبات کو بُری طرح مجروح کیا ہے۔ پاکستان بین المذاہب ہم آہنگی کا زبردست حامی اورانتہا پسندانہ رجحانات کے پرچار کی بہر صورت مخالفت کرنے پر یقین رکھتا ہے۔‘‘
ایک الگ بیان میں پاکستانی وزارت خارجہ نے اس متنازع فلم کے خلاف لیبیا میں پُرتشدد مظاہروں کے دوران مشتعل ہجوم کے حملے میں امریکی سفیر سمیت چار سفارتی اہلکاروں کی ہلاکت کی بھی سخت مذمت کی ہے۔
یہ ہلاکتیں ملک کے دوسرے بڑے شہر بن غازی میں امریکی قونصلیٹ پر حملے کے دوران ہوئیں۔
مصر میں بھی اس فلم کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں اور منگل کو مظاہرین نے قاہرہ میں امریکی سفارت خانے پر چڑھائی بھی کردی تھی، تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ملک میں بدھ کو بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔