بائیڈن انتظامیہ نے جمعرات کے روز امریکہ میں تعینات روس کے دس سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔ امریکہ نے روس کی چھ کمپنیوں اور بتیس کے قریب افراد اور اداروں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق، یہ پابندیاں روس کی جانب سے امریکہ کے گزشتہ سال صدارتی انتخابات پر اثر انداز ہونے اور فیڈرل اداروں کی ہیکنگ کی وجہ سے عائد کی گئی ہیں۔
خبر رساں ادارے رائیٹرز کے مطابق، روس نے جمعرات کے روز امریکی پابندیوں کا جلد جواب دینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے امریکہ پر الزام عائد کیا کہ وہ دو جوہری طاقتوں کے درمیان کشیدگی میں خطرناک حد تک اضافہ کر رہا ہے۔ روس کی وزارتِ خارجہ نے روس میں تعینات امریکی سفیر کو طلب کر لیا ہے، اور روس کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ ہونے والی بات چیت پیچیدہ ہوگی۔
روس کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریا زاخاروا کا کہنا تھاکہ انہوں نے شاید ہی پہلے کبھی ایسی بات کی ہو، لیکن میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ امریکی سفیر کے لئے یہ ملاقات خوشگوار نہیں ہو گی۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، امریکہ کی جانب سے روس کے خلاف یہ کارروائی امریکی اداروں سے غیر قانونی ہیکنگ کے ذریعے معلومات چوری کرنے کی کوششوں کے جواب میں کی جانے والی پہلی کارروائی ہے، جن کا اشارہ امریکی انتظامیہ کئی ہفتوں سے دے رہی تھی۔ اس ہیکنگ کو عرف عام میں سولر ونڈز بریچ کہا جاتا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اس غیر قانونی ہیکنگ سے، ایک نقصان دہ کوڈ کے ذریعے وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والے سوفٹ ویئر کو خراب کیا گیا ، جس سے روس کو امریکہ کے کم ازکم نو اداروں کے نیٹ ورکس تک رسائی حاصل ہو گئی۔ امریکی عہدیداروں کے خیال میں اس ہیکنگ کا مقصد امریکی حکومت کی خفیہ معلومات تک رسائی حاصل کرکے انہیں اکٹھا کرنا تھا۔
اس ہیکنگ کے علاوہ، امریکی عہدیداروں نے الزام عائد کیا تھا کہ گزشتہ ماہ روس کے صدر ولادی میر پوٹن نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسری مدت صدارت کے لئے انتخاب پر اثر انداز ہونے کے لئے کاروائیوں کی اجازت دی تھی۔ تاہم، اے پی کے مطابق، اس بات کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ روس یا کسی اور نے ووٹوں میں تبدیلی کی یا نتائج کو تبدیل کیا۔
جن پابندیوں کا اعلان کیا گیا ہے ان کا اثر روسی حکومت کی سائبر سرگرمیوں میں مدد فراہم کرنے والی چھ روسی کمپنیوں جبکہ بتیس افراد اور اداروں پر پڑے گا۔ اِن کے خلاف الزام ہے کہ انہوں نے گزشتہ سال امریکہ کے صدارتی انتخابات میں مداخلت کی کوشش کی تھی، جس میں غلط معلومات پھیلانا بھی شامل ہے۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ جن دس سفارتکاروں کو امریکہ چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے، وہ روسی انٹیلی جنس کے نمائندے تھے۔
وائٹ ہاؤس کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر بائیڈن سفارتی ، فوجی اور انٹیلی جنس ذرائع استعمال کرتےے ہوئے اُن رپورٹس پر اقدامات اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں، جن کے مطابق، روس نے افغانستان میں امریکی اور اتحادی افواج پر حملوں کیلئے کی حوصلہ افزائی کی تھی۔
ایسی مبینہ رپورٹس کہ روس نے طالبان کے لئے امریکی فوجیوں کی جانوں کی قیمت مقرر کی تھی، گزشتہ سال منظر عام پر آئی تھیں، اور صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کو اس بات پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ انہوں نے اس معاملے پر براہ راست روس کے ساتھ بات کیوں نہیں۔
وائٹ ہاوس نے ایسی رپورٹس کی کھل کر تصدیق نہیں کی تھی۔لیکن جمعرات کے روز وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ "امریکی اور اتحادی افواج کا تحفظ اور بہبود امریکہ کی اؤلین ترجیح ہے"۔
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ امریکہ کی طرف سے روس کے خلاف مزید کوئی اقدامات اٹھائے جائیں گے یا نہیں۔ لیکن امریکی عہدیدار اس معاملے پر کھلے عام اور پوشیدہ اقدامات کا عندیہ پہلے ہی دے چکے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے روس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا دوسرا بڑا واقعہ ہے۔ گزشتہ ماہ امریکہ نے روس کے خلاف اس کے اپوزیشن لیڈر الیکسی نیولنی پر اعصاب کو سُن کر دینے والی گیس کے استعمال اور پھر انہیں جیل بھیجنے کی وجہ سے درمیانی اور سینئر سطح کے سات عہدیداروں اور درجن بھر سے زیادہ سرکاری اداروں پر پابندیاں کر دی تھیں۔