افغانستان میں طالبان سے مذاکرات کے لیے امریکی ایلچی، زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ ملک میں ہلاکتوں کی تعداد میں کمی لانے کا واحد حل یہ ہے کہ امن سمجھوتا طے کیا جائے۔
بدھ کے روز جاری کردہ رپورٹ میں اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ سال 2019 کے پہلے تین ماہ کے دوران طالبان اور دیگر سرکشوں کے مقابلے میں امریکی اور افغان حکومتی افواج کے ہاتھوں زیادہ افغان سویلین ہلاک ہوئے۔
ایک ٹوئیٹ میں خلیل زاد نے جمعرات کے روز کہا ہے کہ ایسی ہلاکتوں پر ’’ہم سب برہم ہوتے ہیں۔ اور ہم افغانوں کے ساتھ ہیں جو ہلاکتوں پر احتجاج کرتے ہیں اور ہم خون ریزی بند کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’فوجی کارروائیوں کے دوران بے قصور افراد کے جانی نقصان پر ہمیں انتہائی افسوس ہوتا ہے‘‘، اور مزید کہا کہ ’’جنگ بندی یا تشدد میں کمی ہی اصل حل ہے، ایسے میں جب ہم دیرپہ امن کی کوششیں کر رہے ہیں‘‘۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2019ء کے پہلے تین ماہ کے دوران حکومت کی حامی افواج کے ہاتھوں 305 ہلاکتیں واقع ہوئیں اور 303 افراد زخمی ہوئے، جب کہ باغی گروہوں کے ہاتھوں ہلاک و زخمی ہونے والوں کی تعداد 227 اور 736 ہے۔
رپورٹ کے مطابق، تمام فضائی کارروائیوں کے دوران ہلاک ہونے والوں میں خواتین اور بچوں کی تعداد نصف ہے۔ لیکن، مجموعی طور پر 2013ء سے اب تک یہ سہ ماہی کم مہلک بتائی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ ہلاکتوں میں کمی کا باعث ملک کے لڑائی میں ملوث مقامات پر خودکش بم حملوں میں کمی آنا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’یہ بات ابھی واضح نہیں آیا شہریوں کی ہلاکتوں میں آنے والی کمی کا سبب تنازعے میں ملوث فریقین کی جانب سے اثر و رسوخ کا استعمال ہے، جن کی یہ کوشش ہے کہ شہری آبادی کو بہتر تحفظ فراہم کیا جائے، یا پھر اس بنا پر ہے کہ تنازع میں فریقین کے مابین مذاکرات کی کوششیں جاری ہیں۔
افغانستان کے بارے میں اقوام متحدہ کے نمائندہٴ خصوصی تدامچی یماموتو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’آئے روز سویلین آبادی کے ہلاک و زخمی ہونے کی خبریں موصول ہوتی ہیں۔ تمام فریقین کو چاہیے کہ وہ سویلین آبادی کے تحفظ کو یقینی بنائیں‘‘۔
خلیل زاد نے جمعرات کے روز انہی جذبات کو اجاگر کرتے ہوئے، اپنے تیسری ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ ’’ہمارے لیے، امن کا معاملہ ہی ایجنڈا پر سرفہرست ہے‘‘۔