امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ افغان امن عمل کی راہ میں حائل مشکلات کے باوجود امن عمل کی کوششوں کی رفتار کم کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
خلیل زاد نے یہ بات پیر کو ایک بار پھر خطے کے دورے پر روانہ ہونے سے قبل ایک ٹوئٹ میں کہی ہے۔
امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے ایک بیان کے مطابق 21 اپریل سے شروع ہو کر 11 مئی تک جاری رہنے والے اس دورے کے دوران خلیل زاد افغانستان، بھارت، پاکستان، قطر، روس اور برطانیہ جائیں گے۔
اپنے ٹوئٹ میں خلیل زاد نے مزید کہا ہے کہ اس دورے کے دوران وہ افغان امن عمل اور افغان فریقین کو بات چیت پر آمادہ کرنے کے لیے بین الاقوامی حمایت کے حصول کی کوشش کریں گے۔
امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے بیان کے مطابق دورۂ کابل کے دوران خلیل زاد افغان حکومت اور دیگر افغان فریقین سے مشاورت کے ساتھ ساتھ انہیں مشورہ دیں گے کہ تمام فریق افغانوں کے درمیان بات چیت کے ذریعے افغان تنازع کے حتمی حل کے لیے کام کریں۔
بیان کے مطابق لندن، ماسکو ، اسلام آباد اور نئی دہلی کے دوروں میں امریکی ایلچی افغان امن عمل کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کریں گے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ امن کے لیے طے پانے والے سمجھوتہ پائیدار ہو۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ قطر میں طالبان کے ساتھ بات چیت میں قومی سلامتی کے اہم امور پر اتفاق رائے کے ساتھ ساتھ خلیل زاد طالبان پر افغان فریقین کے مابین مذاکرات میں شریک ہونے پر بھی زور دیں گے۔
امریکہ کے خصوصی ایلچی خلیل زاد طالبان کے ساتھ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں متعدد بار ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ اس بات چیت کے نتیجے میں دونوں فریقین نے بعض امور پر اتفاق کیا ہے لیکن تاحال طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بات چیت اور افغانستان میں جنگ بندی کے معاملے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
اگرچہ امریکہ کے اصرار کے باوجود طالبان افغان حکومت سے بات چیت پر آمادہ نہیں لیکن انہوں نے افغانوں پر مشتمل ایک وفد سے بات چیت پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ لیکن یہ بات چیت بھی کابل حکومت کی طرف سے پیش کی جانے والی فہرست پر فریقین کے اختلافات کی وجہ سے ملتوی ہو گئی ہے۔