امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے کابل حکومت کے ساتھ حالیہ تناؤ کے باوجود اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ 2019ء افغانستان کے لیے امن کا سال ہو گا۔
خلیل زاد نے یہ بات کابل میں ریڈیو لبرٹی/ ریڈیو فری یورپ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہی ہے۔
افغانستان میں قیامِ امن کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد ان دنوں کابل میں ہیں ۔ خلیل زاد نے بدھ کو کابل میں صدر اشرف غنی کے ہمراہ افغان سیاسی رہنماؤں بشمول افغان چیف ایگزیکٹو سے ملاقا ت کی اور افغان عمل پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
صدر غنی نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ اس بات چیت کا محور افغانستان میں جنگ کو ختم کرنے کے لیے ہونے والی کوششیں اور امن عمل کے اگلے مرحلہ سے متعلق اقدامات تھے۔ افغان صدر کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ بات چیت کا مقصد طالبان کے ساتھ بات چیت کے کے لیے افغان حکومت اور افغان سیاسی رہنماؤں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنا تھا۔
خلیل زاد قطر میں افغان طالبان کے نمائندوں کے ساتھ متعدد ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ جن پر افغان حکومت اس لیے تحفظات کا اظہار کر چکی ہے کہ انہیں ان مذاکرات سے الگ رکھا جا رہا ہے۔ دوسری جانب امریکہ اور اتحادی ملکوں کے دباؤ کے باوجود طالبان تاحال کابل حکومت سے بات چیت کے لیے تیار نہیں۔
طالبان کے ساتھ بات چیت کے معاملے پر کابل حکومت کے تحفظات کے بارے میں کابل اور واشنگٹن کے اختلافات مارچ میں اس وقت کھل کر سامنے آئے تھے جب افغان صدر اشرف غنی کے قومی سلامتی کے مشیر حمداللہ محب نے خلیل زاد پر شدید تنقید کی تھی۔
محب نے اپنے حالیہ دورۂ امریکہ کے دوران زلمے خلیل زاد کو وائسرائے قرار دیتے ہوئے ان پر سیاسی عزائم رکھنے کا الزام لگایا تھا۔ ان کے اس بیان پر امریکی حکومت نے سخت ردِ عمل ظاہر کیا تھا۔
لیکن منگل کو اپنے انٹرویو میں خلیل زاد کا کہنا تھا کہ کابل حکومت کے ساتھ ان کے تعلقات اچھے ہیں اور وہ مذاکرات میں ہونے والی ہر پیش رفت سے افغان حکومت کو آگاہ رکھتے ہیں۔
خلیل زاد کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہمیشہ صدر اشرف غنی سے کہا ہے کہ وہ کسی بھی وقت ان سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ ان کے بقول "میرا فون نمبر بھی ان کے پاس ہے۔"
ایک سوال پر امریکی ایلچی کا کہنا تھا کہ وہ محب کے معاملے پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔ امریکہ نے اس معاملے پر اپنا فیصلہ کیا ہےـ
کابل کے اپنے حالیہ دورے کے دوران زلمے خلیل زاد نے صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور کئی دیگر افغان رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔
'طالبان سیاسی تصفیے کے لئے تیار ہیں'
اپنے انٹرویو میں زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ یہ سال افغانستان میں امن کا سال ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ افغان عوام اور دنیا اس جنگ سے اکتا چکے ہیں اور یہ جنگ ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ طالبان کے مطابق وہ یہ جنگ جیت نہیں سکتے اور وہ سیاسی تصفیے کے لیے تیار ہیں اور امریکہ اور افغان حکومت کی بھی یہی خواہش ہے۔
خلیل زاد کے بقول بالآخر "کچھ لو اور دو" کی بنیاد پر دونوں فریقین کسی سمجھوتے پر پہنچ کر جنگ کو ختم کر سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان نے گزشتہ ماہ قطر میں بات چیت کے اپنے آخری دور کے بعد یہ کہا تھا کہ دونوں فریقوں کے درمیان افغان سرزمین کو پھر سے دہشت گردی کا مرکز بننے سے روکنے کے بدلے افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا سے متعلق سمجھوتے کے "مسودے" پر اتفاق ہو گیا ہے۔
خلیل زاد نے امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ میں ہونے والی بات چیت کے بعد کہا تھا کہ ان معاملات پر حقیقی پیش رفت ہوئی ہے۔
لیکن انہوں نے وضاحت کی تھی کہ دو دیگر امور - افغانستان میں جنگ بندی اور افغانوں کے مابین مذاکرات - پر تاحال پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
منگل کو اپنے انٹرویو میں خلیل زاد کا کہنا تھا کہ طالبان کے مطابق جنگ بندی کا معاملہ اس وقت زیرِ بحث آئے گا جب افغانوں کے درمیان بات چیت شروع ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ وہ پر امید ہیں کہ تنازع کے افغان فریقین کے مابین جلد بات چیت شروع ہو گی اور "ہم جلد کسی قابل عمل نتیجے پر پہنچ جائیں گےـ"
امریکی ایلچی کا کہنا تھا کہ یہ بہت اچھا ہو گا کہ افغانستان کے صدارتی انتخابات سے پہلے کوئی معاہدہ طے پا جائے اور جو کچھ بھی افغانوں بشمول حکومت کے درمیان طے پائے اس پر فوری عمل درآمد بھی ہو۔
خلیل زاد نے امریکہ اور طالبان کے درمیان وسط اپریل میں دوحہ میں بات چیت کے ایک اور متوقع دور سے پہلے کابل کا دورہ کیا ہے اور توقع ہے کہ وہ رواں ہفتے اسلام آباد کا دورہ بھی کریں گے۔