رسائی کے لنکس

امریکہ کا افغان صدر کے مشیر کے ساتھ بات چیت سے انکار


افغان صدر کے مشیر برائے قومی سلامتی حمد اللہ محب (فائل فوٹو)
افغان صدر کے مشیر برائے قومی سلامتی حمد اللہ محب (فائل فوٹو)

امریکہ نے افغان صدر اشرف غنی پر واضح کیا ہے کہ وہ ان کے مشیر برائے قومی سلامتی حمد اللہ محب کے ساتھ اب کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں رکھے گا۔

برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' نے منگل کو اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکی حکام حمد اللہ محب کے حالیہ بیان پر سخت برہم ہیں جس میں انہوں نے امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مذاکراتی عمل پر کڑی تنقید کی تھی۔

'رائٹرز' کے مطابق افغان مشیر برائے قومی سلامتی کی تنقید کے اگلے ہی روز امریکی نائب وزیرِ خارجہ برائے سیاسی امور ڈیوڈ ہیل نے صدر اشرف غنی کو ٹیلی فون کرکے معاملے پر احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔

خبر رساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ ٹیلی فونک گفتگو کے دوران ڈیوڈ ہیل نے افغان صدر پر واضح کردیا تھا کہ حمد اللہ محب کو اب امریکہ آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور امریکہ کے سول اور فوجی حکام ان کے ساتھ کسی قسم کی کوئی بات نہیں کریں گے۔

معاملے سے واقف افغان حکومت کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار نے 'رائٹرز' سے گفتگو میں کہا ہے کہ امریکہ کے اس اقدام کا بظاہر مقصد صدر غنی کو حمد اللہ محب کو برطرف کرنے پر مجبور کرنا ہے۔

حمد اللہ محب کو صدر غنی نے گزشتہ سال اگست میں قومی سلامتی کا مشیر مقرر کیا تھا۔ اس سے قبل وہ امریکہ میں افغانستان کے سفیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے۔

'رائٹرز' کے مطابق اس نے معاملے کی تصدیق کے لیے امریکی محکمۂ خارجہ سے رابطہ کیا تھا جس نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔امریکہ میں قائم افغان سفارت خانے نے بھی ان اطلاعات پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

حمداللہ محب نے گزشتہ ہفتے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ وہ طالبان سے مذاکرا ت اس لیے کر رہے ہیں تاکہ وہ افغانستان کی عبوری حکومت میں "وائسرائے" بن سکیں۔

واشنگٹن ڈی سی کے دورے کے دوران ایک پریس کانفرنس میں حمد اللہ محب نے الزام عائد کیا تھا کہ خلیل زاد افغان حکومت کی قانونی حیثیت کو نقصان پہنچا کر طالبان کو قانونی جواز فراہم کر رہے ہیں۔

امریکی حکام نے حمد اللہ محب کے اس بیان پر فوری ردِ عمل ظاہر کیا تھا اور انہیں سفارتی روایات کے برخلاف محکمۂ خارجہ طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا گیا تھا۔

حمد اللہ کے بیان پر اپنے ردِ عمل میں امریکی محکمۂ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ ان کے بیان سے افغان امن عمل اور دو طرفہ تعلقات پر منفی اثر پڑے گا۔

ترجمان نے یہ بھی کہا تھا کہ زلمے خلیل زاد امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کے نمائندے کے طور پر طالبان سے مذاکرات کر رہے ہیں اور خلیل زاد پر تنقید پومپیو پر تنقید تصور کی جائے گی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حمد اللہ محب کی تنقید افغان حکومت کی اس پریشانی اور تشویش کا اظہار ہے جو اسے امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات میں شامل نہ کرنے پر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کو خدشہ ہے کہ امریکہ افغانستان سے اپنے فوجی انخلا کی تیاری کر رہا ہے جس سے طالبان کی حوصلہ افزائی ہوگی اور افغان حکومت کی معاملات پر گرفت کمزور پڑ جائے گی۔

افغان حکام دبے لفظوں میں مسلسل کہتے آ رہے ہیں کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات اور کوئی بھی معاہدہ افغان حکومت کا اختیار ہے اور کسی تیسرے ملک کو یہ کام نہیں کرنا چاہیے۔

XS
SM
MD
LG