نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے ڈیموکریٹک اور ری پبلیکن پارٹی کی انتخابی مہم زوروں پر ہے اور وونوں پارٹیوں کے نامزد امیدواروں کی جانب سے ایک دوسرے پر نکتہ چینی کے ساتھ ساتھ ملکی مسائل اور پالیسیاں جلسوں اور تقریروں کا موضوع بن رہی ہیں۔
جمعرات کے روز نیویارک میں اپنی تقریروں کے دوران ری پبلیکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی توجہ معیشت پر مرکوز رکھی۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ امریکی معیشت میں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران بے روزگاری کی شرح میں کمی اور لوگوں کی أوسط آمدنیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اب بھی بہت سے امریکی بے روزگار ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ اس وقت 9کروڑ 20 لاکھ امریکی ورک فورس سے باہر ہیں اور وہ ہماری معیشت کا حصہ نہیں ہیں۔ یہ بے روزگار امریکیوں کی ایک بہت نمایاں تعداد ہے۔
جمعرات کے روز معیشت سے متعلق ایک گروپ، اکنامک کلب آف نیویارک، میں تقریر کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ ان کی ٹیم کے پاس روزگار کے 25لاکھ نئے مواقع پیدا کرنے اور أوسط اقتصادی پیداوار میں ساڑھے تین فی صد اضافے کا ایک منصوبہ موجود ہے ۔ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیداوار بڑھانے کا ایک اہم طریقہ بے قابو افسر شاہی کی جانب سے یک طرفہ طور پر نافذ کردہ برسوں پرانے ضابطوں کو اکھاڑ پھینکنا ہے ۔
ٹرمپ نے غیر ملکی تجارتي معاہدوں پر خاص طور پر نکتہ چینی کی۔ انہوں نے کہا کہ تجارت کی عالمی تنظیم میں چین کے شامل ہونے کے بعد ہماری اقتصادی شرح افزائش گھٹ کر صرف دو فی صد پر آ چکی ہے۔ لوٹ مار پر مبنی تجارتي حربے، پیداوار کی ذخیرہ اندوزی، زر کی قدر کے معاملے میں ہیراپھیری ۔۔۔۔ جو بہت نمایاں ہے، اور انٹلکچول پراپرٹی کی چوری کی وجہ سے ہمارے لاکھوں روزگار اور اربوں ڈالر کی دولت ملک سے باہر جا چکی ہے۔
دوسری جانب ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار ہلری کلنٹن نے نمونیہ میں مبتلا ہونے کے باعث چند دن آرام کرنے کے بعد اپنی انتخابی مہم دوبارہ شروع کردی ہے۔ انہوں نے جمعرات کا دن ریاست نارتھ کیرولینا میں ووٹروں کے ساتھ رابطوں میں گذارا۔ صحت یابی کے بعد اپنی پہلی انتخابي تقریر میں اپنی شخصیت کے نرم پہلو کو اجاگر کیا ۔ ان کا کہنا کہ میں چاہتی ہوں کہ ہم اپنے بچوں کو ایک زیادہ محفوظ دنیا دیں۔ میرے نزدیک اس کا مطلب ایک ایسی دنیا ہے جس میں ہمارے زیادہ اتحادی، زیادہ دوست اور کم دشمن اور کم تعداد میں جوہری ہتھیار ہوں۔