کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بغیر پائلٹ طیاروں یا ڈرونز نے امریکہ کی فوجی حکمت عملی کو بدل کر رکھ دیا ہے اور مستقبل میں امریکی فوجی کارروائیوں میں ڈرونز کا کردار اور بھی زیادہ ہو جائے گا۔
ایک اندازے کے مطابق امریکی فوج کے پاس تقریباً دس ہزار ڈرونز ہیں۔ اس کے علاوہ امریکی خفیہ ادارہ سی آئی اے بھی یہ طیارے استعمال کرتا ہے جن کی تعداد نامعلوم ہے۔ حال ہی میں پاکستان میں القاعدہ کے اہم رہنما ابو یحییٰ ال لبی کو اسی کی مددسے ہلاک کیا گیا۔
پاکستان اپنی سر زمین پر ان کے استعمال کے خلاف احتجاج کرتا آیا ہے مگر حال ہی میں امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے کہا ہے کہ امریکہ اس کا استعمال ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ۔
ان کا کہنا ہے کہ ہم نے پاکستان پر واضح کیا ہے کہ جو لوگ ہم پر حملے کریں گے امریکہ ان کے خلاف اپنا دفاع کرے گا۔ اور ہم نے موثر طریقے سے القاعدہ کی قیادت کو نشانہ بنایا ہے۔
واشنگٹن میں بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ دونوں ملکوں کو ا یک دوسرے سےمعاملات طے کرنے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ اس نازک صورتحال میں مزید پیچیدگی دو طرفہ تعلقات اور خطے کے لئے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔
ڈرونز کو آپریٹ کرنا قدرے سستا ہے اور ان سے داغے گئے مزائل بھی ٹھیک نشانے پر بیٹھتے ہیں۔ اور ہزاروں میل دور سے ان کو اڑانے والے آپریٹرزکو بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔
ایسے وقت میں جب امریکی عوام جنگوں سے بیزار ہو چکے ہیں اور معیشت دباؤ کا شکار ہے اوباما انتظامیہ نےبغیر پائلٹ طیاروں کے استعمال کو دفاعی حکمت عملی کا مرکزی جز بنایا ہے ۔
کچھ لوگوں کے نزدیک یہ انقلابی تبدیلی ابھی ہو رہی ہے۔ ڈرونز کے بغیر کوئی زیادہ آثار چھوڑنے اور موثر کارروائیوں کی وجہ سے امریکی فوج اور حساس ادارے ان پر زیادہ سے زیادہ انحصار کر رہے ہیں۔
مگر ڈرونز کے ٕمخالفین اسے ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ڈرونز کا استعمال خطرے سے خالی نہیں اور اکثر اوقات پاکستان اور دوسری جگہوں پر معصوم شہریوں کی ہلاکتیں ذرائع ابلاغ میں رپورٹ نہیں ہوتیں۔
امریکی قیادت کے لئے ڈرونز نے اپنی افادیت دکھا دی ہے اور مستقبل میں زیادہ فوجی کارروائیاں انہی سے ہونگی۔ان کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کا مظالبہ ہے کہ ان پر اس وقت تک پابندی لگنی چاہئے جب تک ان کے استعمال کے بارے میں مناسب قوانین نہیں بنا دئیے جاتے۔